1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اے آر وائی کی بندش پر پاکستانی صحافتی برداری برہم

13 اگست 2022

حکومتی احکامات پر معروف پاکستانی ٹی وی چینل اے آر وائی کی بندش پر صحافتی برداری نے ملک بھر میں احتجاج کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ معاملہ چینل پر فوج سے متعلق ایک متنازعہ بیان کے بعد شروع ہوا۔

Salman Iqbal und Imran Khan
تصویر: ARY

پاکستان کی سابقہ حکمران جماعت تحریک انصاف کے اہم رہنما اور سابق وزیراعظم عمران خان کے چیف آف اسٹاف شہباز گِل نے اس ٹی وی چینل پر اپنے ایک بیان میں فوج سے متعلق سخت جملے استعمال کیے تھے۔ جس کے بعد شہباز گل پر فوجی اہلکاروں کو اپنے افسران کے خلاف بغاوت پر اکسانے کے الزام عائد کیے گئے تھے۔ اسی تناظر میں شہباز گل کو گرفتار کر لیا گیا تھا جب کہ یہ بیان نشر کرنے والے ٹی وی چینل اے آر وائی کا لائسنس واپس لینے کے احکامات جاری کیے گئے ہیں۔

اے آر وائی کے خلاف کارروائی کی ذمہ دار حکومت ہے، سلمان اقبال

شہباز گل کی گرفتاری: ممکنہ سیاسی نتائج کیا کیا، بحث جاری

پاکستانی حکومتی موقف ہے کہ اس ٹی وی چینل نے 'فوج مخالف‘ بیان نشر کر کے ''پاکستانی کی قومی سلامتی کے لیے خطرات‘‘ پیدا کیے ہیں۔ تاہم پاکستانی صحافیوں کی وفاقی تنظیم فیڈرل یونین آف جرنلسٹس PFUJ کے صدر افضال بٹ نے خبر رساں ادارے ڈی پی اے سے بات چیت میں کہا ہے کہ اس چینل کا لائسنس بحال کیا جائے۔ ''ہم چینل کی فوری بحالی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ دوسری صورت میں ہم پورے ملک میں احتجاج کریں گے۔‘‘

میڈیا انتظام سے متعلق پاکستان میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی نے جمعے کو اے آر وائی نیوز کا لائسنس منسوخ کر دیا تھا۔پیمرا کے مطابق، ''یہ احکامات ملکی ایجنسیوں کی جانب سے اس چینل سے متعلق خراب رپورٹوں کے تناظر میں جاری کیے گئے۔‘‘

خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق اے آر وائی نیوز جسے سابق وزیراعظم عمران خان کا حامی سمجھا جاتا ہے، پیر کے روز اس وقت بند کر دیا گیا تھا، جب عمران خان کے ایک مشیر نے ایک پروگرام میں مبینہ طور پر کہا تھا کہ فوجی افسران کو اپنے افسران بالا کے ایسے احکامات ماننے سے انکار کر دینا چاہیے جو غیرقانونی ہوں یا جو ملکی اکثریتی رائے کے خلاف ہوں۔اس بیان کے کچھ دیر بعد شہباز گل کو بغاوت کے الزامات کے تحت حراست میں لے لیا گیا تھا۔

صحافتی تنظیم کے سربراہ افضال بٹ نے کہا کہ بغیر قانونی راستہ اپنائے، نیوز چینل کی بندش سے متعلق حکومتی احکامات نے ہزاروں صحافیوں کو بے روز گار کر دیا ہے۔

اس سے قبل اے آر وائی کی انتظامیہ نے بھی اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ حکومتی فیصلے سے اس چینل سے وابستہ تین ہزار سے زائد صحافیوں اور دیگر افراد کی ملازمتیں خطرے میں ہیں۔پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ نے اپنے بیان میں تاہم نیوز چینلز سے بھی کہا ہے کہ وہ آزادی رائے کا غلط استعمال نہ کریں۔

یہ بات اہم ہے کہ اے آر وائی ماضی میں بھی معطلی کا سامنا کر چکا ہے، جب کہ برطانیہ میں مختلف سیاستدانوں سے متعلق غلط خبریں نشر کرنے پر اسے جرمانوں کا سامنا بھی رہا ہے۔

ع ت، ب ج (اے ایف پی، ڈی پی اے)

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں