برلن کا مشہور نائٹ کلب، انتہائی مہلک بیکٹیریا کے باعث وارننگ
3 اکتوبر 2018
جرمن دارالحکومت برلن میں حکام ایک بہت مشہور نائٹ کلب کا رخ کرنے والے مہمانوں کو وہاں پائے گئے ایک انتہائی مہلک بیکٹیریا کے خلاف خبردار کر رہے ہیں۔ حکام کے مطابق ممکن ہے کہ یہ مہمان اس بیکٹیریا سے متاثر ہو چکے ہوں۔
اشتہار
برلن کے اس معروف نائٹ کلب کا نام ’کِٹ کَیٹ کلب‘ ہے اور اس کے بارے میں یہ بات بھی مشہور ہے کہ وہاں ’ہر چیز اور ہر کام ممکن‘ ہوتا ہے۔ یہی نائٹ کلب ایک ’سیکس کلب‘ کے طور پر بھی بہت زیادہ شہرت رکھتا ہے، جہاں صحت عامہ کے محکمے کے اہلکاروں کو ایک ایسے بیکٹیریا کی موجودگی کے شواہد ملے ہیں، جو کسی بھی انسان کے لیے چند ہی گھنٹوں میں زندگی کے شدید خطرے کا باعث بن سکتا ہے۔
’بروڈول‘ سیکس ڈولز پر مشتمل جرمن قحبہ خانہ پر ایک نظر
جرمن شہر ڈورٹمنڈ میں ایک ایسا قحبہ خانہ بھی ہے جہاں مرد، خواتین اور جوڑوں کو ان کی جنسی تسکین کے لیے سلیکون سے بنائی گئی گڑیاں مہیا کی جاتی ہیں۔ تفصیلات ڈی ڈبلیو کے چیز ونٹر کی ’بروڈول‘ سے متعلق اس پکچر گیلری میں۔
تصویر: DW/C. Winter
حقیقی خواتین کیوں نہیں؟
یہ کاروبار تیس سالہ جرمن خاتون ایویلین شوارز نے شروع کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ قحبہ خانے میں کام کرنے کے لیے انہیں جرمن خواتین نہیں مل رہی تھیں اور غیر ملکی خواتین جرمن زبان پر عبور نہیں رکھتیں۔ شوار کے مطابق ان کے جرمن گاہکوں کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ پیشہ ور خواتین ان کی بات درست طور پر سمجھ پائیں۔
تصویر: DW/C. Winter
بے زبان گڑیا
ایویلین شوارز نے ٹی وی پر جاپانی سیکس ڈولز سے متعلق ایک رپورٹ دیکھی تو انہیں لگا کہ غیر ملکی خواتین کے مقابلے میں سیکس ڈولز پر مشتمل قحبہ خانہ زیادہ بہتر کاروبار کر پائے گا۔ شوارز کے مطابق، ’’یہ دکھنے میں خوبصورت ہیں، بیمار بھی نہیں ہوتی اور بغیر کسی شکایت کے ہر طرح کی خدمات پیش کر سکتی ہیں۔‘‘
تصویر: DW/C. Winter
جذبات سے عاری اور تابعدار
’بروڈول‘ کی مالکہ کا کہنا ہے کہ کئی گاہگ سماجی مسائل کا شکار ہوتے ہیں اور وہ لوگوں سے بات چیت کرنے سے کتراتے ہیں۔ ایسے افراد کے لیے جذبات سے عاری سیکس ڈولز باعث رغبت ہوتی ہیں۔
تصویر: DW/C. Winter
مردوں کی انا کی تسکین
جسم فروش خواتین کے پاس آنے والے گاہکوں کو مختلف خدمات کے حصول کے لیے پیشگی گفتگو کرنا پڑتی ہے جب کہ سلیکون کی بنی ہوئی یہ گڑیاں بغیر کسی بحث کے مردوں کی خواہشات پوری کرتی ہیں۔ ایویلین شوارز کے مطابق، ’’ان گڑیوں کے جذبات کا خیال رکھے بغیر مرد گاہگ جتنا چاہیں انا پرست ہو سکتے ہیں۔‘‘
تصویر: DW/C. Winter
خطرناک جنسی رویے
اس قحبہ خانے کا رخ کرنے والوں میں مرد و زن کے علاوہ ایسے جوڑے بھی ہوتے ہیں جو شوارز کے بقول خطرناک جنسی رویوں کے حامل ہوتے ہیں۔ ایسے گاہگوں کے لیے ’بی ڈی ایس ایم‘ کمرہ بھی موجود ہے۔ شوارز کے مطابق، ’’ کسی خاتون کے ساتھ پر تشدد ہونے کی بجائے گڑیا کے ساتھ ایسا کرنا بہتر ہے۔‘‘
تصویر: DW/C. Winter
گڑیوں کے ساتھ بھی جذباتی لگاؤ
شوارز کے مطابق اس قحبہ خانے میں آنے والوں گاہکوں میں سے ستر فیصد دوبارہ لوٹ کر ضرور آتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کئی لوگ ایسے بھی ہیں جو ہر ہفتے یہاں آتے ہیں جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ لوگ ان گڑیوں سے جذباتی وابستگی رکھتے ہیں۔
تصویر: DW/C. Winter
سماجی قبولیت بھی ہے؟
’بروڈول‘ ایسا پہلا قحبہ خانہ نہیں ہے جہاں سلیکون کی گڑیاں رکھی گئی ہیں۔ جاپان میں ایسے درجنوں کاروبار ہیں اور حالیہ کچھ عرصے کے دوران ہسپانوی شہر بارسلونا اور جرمن دارالحکومت برلن میں بھی ایسے قحبہ خانے کھولے جا چکے ہیں۔ تاہم ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ یورپ میں اس کاروبار کے مستقبل سے متعلق کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا۔
تصویر: DW/C. Winter
یہ کاروبار کتنا اخلاقی ہے؟
اس قحبہ خانے کی مالکہ کے مطابق انہیں اس کاروبار کے اخلاقی ہونے سے متعلق کوئی تحفظات نہیں ہیں۔ ان کا کہنا تھا، ’’یہ تو بس کھلونوں کی مانند ہیں۔‘‘
تصویر: DW/C. Winter
سیکس ڈولز کے چہروں کے بچگانہ خدوخال؟
کئی ناقدین نے سلیکون کی بنی ان گڑیوں کے چہروں کے بچگانہ خدوخال کے باعث شدید تنقید بھی کی ہے۔
تصویر: DW/C. Winter
’صفائی کاروباری راز‘
قحبہ خانے کا آغاز چین سے درآمد کی گئی چار گڑیوں سے کیا گیا تاہم طلب میں اضافے کے سبب اب یہاں سلیکون کی بارہ سیکس ڈولز ہیں جن میں سے ایک مرد گڑیا بھی ہے۔ ’بروڈول‘ کی مالکہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ صفائی کیسے کی جاتی ہے، یہ ان کا کاروباری راز ہے لیکن ان یہ بھی کہنا تھا کہ ہر گاہک کے بعد گڑیوں کی مکمل صفائی کر کے انہیں ہر طرح کے جراثیموں سے پاک کیا جاتا ہے۔
تصویر: DW/C. Winter
10 تصاویر1 | 10
طبی ماہرین نے اس بیکٹیریا کا نام ’نائسیریا مَینِنگی ٹِیڈِس‘ (Neisseria meningitidis) بتایا ہے اور خاص طور پر ویک اینڈ پر بہت زیادہ رش کے دنوں میں اس کلب کا رخ کرنے والے اور عیش و عشرت کے دلدادہ افراد کو یہ تنبیہ کی جا رہی ہے کہ ہو سکتا ہے کہ وہ اس بیکٹیریا سے متاثر ہو چکے ہوں۔ اسی لیے ایسے تمام افراد کو یہ مشورہ دیا جا رہا ہے کہ وہ طبی ماہرین سے مشورے کر کے اپنے طور پر یہ تسلی کر لیں کہ وہ اس بیکٹیریا کا شکار نہیں ہوئے۔
اپنی اس تنبیہ میں برلن شہر کے ’رائنِکّن ڈورف‘ (Reinickendorf) نامی حصے کے بلدیاتی حکام کی طرف سے کہا گیا ہے، ’’وہ تمام افراد جو انتیس ستمبر کو کسی بھی وقت اس کلب میں گئے تھے، انہیں اپنے اپنے ڈاکٹر سے رابطہ کر کے یہ پتہ چلا لینا چاہیے کہ وہ اس بیکٹیریا سے متاثر تو نہیں ہوئے۔ ’نائسیریا مَینِنگی ٹِیڈِس‘ نامی یہ بیکٹیریا meningitis کی بیماری کی وجہ بن سکتا ہے۔
اپنے ہاں بجائی جانے والی بہت اونچی موسیقی کی وجہ سے انتہائی معروف برلن کے اس کلب کے بارے میں یہ بھی ایک طے شدہ بات ہے کہ وہاں مہمانوں کے مابین کھلے عام جنسی رابطے بھی معمول کی بات ہیں۔ لیکن طبی حوالے سے تشویش کی بات یہ ہے کہ وہاں ماہرین کو جس بیکٹیریا کی اے، سی، وائی اور ڈبلیو ایک سو پینتیس نامی اقسام کی موجودگی کے ثبوت ملے ہیں، وہ جس بیماری کا سبب بنتا ہے، وہ دماغ کی اندرونی سطح کو سوزش کا شکار بنا دیتی ہے۔
ایسے ’فحش اسٹارز‘ جو فلمی ستارے بن گئے
سنی لیون پہلی بھارتی اداکارہ ہیں، جنہوں نے اپنے کیریئر کا آغاز پورن انڈسٹری سے کیا لیکن ہالی وڈ میں ایسے کئی نام ہیں۔ ایک نظر آٹھ ایسے فنکاروں پر ڈالتے ہیں، جو ’سوفٹ کور پورن ‘ کے فحش اسٹارز سے فلم اسٹار بنے۔
تصویر: UNI
جیکی چین
اپنی ایکشن فلموں اور بچوں کی طرح معصوم مسکراہٹ کے لیے دنیا بھر میں مشہور جیکی چین نے 70 کی دہائی میں ایک نیم فحش مزاحیہ فلم ’آل ان دی فیملی‘ میں کام کیا۔ سمجھا جاتا ہے کہ یہ ان کی واحد فلم ہے، جس میں کوئی ایکشن سین نہیں۔ جیکی چین نے حال ہی میں کہا تھا کہ انہیں یہ فلم کرنے کا کوئی افسوس نہیں ہے۔
تصویر: Getty Images/G. Cattermole
کیمرون ڈياز
کیمرون ڈياز امریکی ٹی وی سیریز اور فلموں دونوں میں ہی کامیاب رہیں۔ ڈياز نے اپنے کیریئر کا آغاز ’سوفٹ کور پورن‘ فلموں سے کیا۔ تاہم انہیں بالی وڈ میں فلمیں ملنے کے پیچھے ان کے ماضی کا کوئی کردار نہیں ہے۔ ہالی وڈ میں ہٹ ہونے کے بعد ان کے فحش فلموں میں کام کرنے کی بات سامنے آئی۔ انہیں 1994ء کی فلم ’ماسک‘ اور 2000ء کی ’چارلیز اینجلس‘ میں کردار ادا کرنے پر سراہا جاتا ہے۔
تصویر: Theo Wargo/NBC/Getty Images
سلویسٹر اسٹالون
آج بھی سلویسٹر اسٹالون کو ’روکی‘ اور ’ریمبو‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ہالی وڈ میں قدم رکھنے سے پہلے 70 کی دہائی میں انہوں نے کچھ نیم فحش فلموں میں کام کیا۔ پہلی بار انہیں Party at Kitty and Stud's نام کی ’سوفٹ کور پورن‘ میں دیکھا گیا تھا۔ اس فلم کے لیے انہیں صرف 200 امریکی ڈالر کا معاوضہ ملا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
پامیلا اینڈرسن
پامیلا اینڈرسن کو کون نہیں جانتا۔ پامیلا اینڈرسن ٹی وی سیریل ’بے واچ‘ سے دنیا بھر میں مشہور ہوئیں۔ 1989ء میں وہ پہلی بار پلے بوائے میگزین کے کور پر نظر آئیں۔ اس کے بعد سے انہیں مسلسل اڈلٹ میگزینز کے لیے ماڈلنگ کرتے دیکھا گیا۔ 2010 میں وہ بگ باس میں بھی جلوہ افروز ہوئیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
آرنلڈ شیوارزنیگر
جی ہاں! کیلی فورنیا کے سابق گورنر اور ’ٹرمنیٹر‘ سے مشہور ہونے والے اس اداکار کا بھی ایک زمانے میں اڈلٹ انڈسٹری سے ناطہ رہا۔ شیوارزنیگر نے فلموں میں نہیں بلکہ ایک جنسی میگزین کے لیے کئی بار فوٹو سیشن کرائے۔ بعدازاں میں وہ نہ صرف امریکا کی فلموں میں کامیاب رہے، بلکہ سیاست میں بھی۔ سن 2003ء سے 2011 ء تک وہ کیلی فورنیا کے گورنر رہے۔
تصویر: picture-alliance/KPA
میٹ لی بلانک
امریکا کا کوئی بھی ٹی وی پروگرام شاید ہی اتنا مقبول نہیں رہا جتنا 90 کی دہائی کا ’فرینڈز‘۔ اس میں جوئی کا کردار ادا کرنے والے میٹ لی بلانک نے ماضی میں ’دی ریڈ شو سیریز‘ نام کی نیم فحش سیریز میں بھی کام کیا تھا۔
تصویر: Getty Images/M. Thompson
مارلن منرو
جس زمانے میں مارلن منرو لوگوں کے دلوں پر چھا رہی تھیں، اس زمانے میں پورن انڈسٹری کو امریکا میں کوئی اتنی مقبولیت حاصل نہ تھی جتنا کہ آج کل کے دور میں ہے۔ 1949ء میں انہوں نے ایک کیلنڈر کے شوٹ کے لیے نیم عریاں تصاویر كھچوائی تھیں، جس کے لیے انہیں کافی تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا تھا۔
تصویر: picture alliance/Heritage Images
’سونے کی بے بی ڈول‘
كرنجيت کور ووہرا بالمعروف سنی لیون نے سن 2012 میں پوجا بھٹ کی فلم جسم -2 کے ساتھ بالی وڈ میں قدم رکھا۔ کینیڈا کی سنی نے بالی وُڈ آنے سے پہلے امریکا میں تقریباﹰ ایک دہائی تک اڈلٹ یا بالغوں کے لیے مخصوص فلموں میں کام کیا۔ اب وہ فحش فلموں سے تو دور ہو چکی ہیں لیکن بالی وڈ میں انہوں نے اپنی جگہ بنا لی ہے۔
تصویر: AP
8 تصاویر1 | 8
یہ بیکٹیریا انسانی لعاب یا نظام تنفس کی کارکردگی کے دوران جسم سے خارج ہونے والی رطوبتوں سے پھیلتا ہے اور اسی لیے حکام کو خدشہ ہے کہ ممکنہ طور پر بہت سے افراد اس کا شکار ہو چکے ہوں گے۔ اس بیماری کی عمومی علامات میں سر درد، تیز بخار، سردی لگنا، غنودگی، گردن کا اکٹر جانا اور جسمانی طور پر شدید نقاہت شامل ہیں۔
یہ مہلک جرثومہ چند ہی گھنٹوں میں ایک ایسی انفیکشن کی وجہ بن سکتا ہے، جو انسانی زندگی کے لیے خطرناک ہو سکتی ہے۔ لیکن اگر بروقت علم ہو جائے تو اس جرثومے سے متاثرہ افراد کا اینٹی بائیوٹکس کی مدد سے علاج ممکن ہوتا ہے۔
برلن کا یہ ’کِٹ کَیٹ کلب‘ جرمن دارالحکومت کے نائٹ کلبوں میں سے اپنے مہمانوں کو روایتی سے ہٹ کر ’متبادل امکانات‘ پیش کرنے والا ایسا مشہور ترین کلب ہے، جہاں بہت بڑی تعداد میں دنیا بھر سے تعلق رکھنے والے مہمان آتے ہیں۔
چیز ونٹر / م م / ا ا
جرمنی میں موج مستی کے دس بڑے مقامات
آپ کو کلبوں، بارز اور ریستورانوں کی تلاش ہے؟ پارٹی اور جشن کے دلدادہ لوگوں کے لیے جرمنی میں بہت کچھ ہے۔ ہیمبرگ سے میونخ تک دَس بڑے مقامات اس حوالے سے کچھ زیادہ ہی شہرت رکھتےہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/K. Nietfeld
برلن: چوبیس گھنٹے ہنگامہ
صبح ہو یا شام، برلن میں آپ دن کے چوبیسوں گھنٹے موج مستی کر سکتے ہیں۔ کچھ لوگ خاص طور پر برلن پہنچتے ہیں تاکہ وِیک اَینڈ پر ایک پارٹی سے دوسری میں جا سکیں۔ دریائے سپرے کے ساتھ ساتھ، کروئس برگ میں یا پھر فریڈرکس ہائن میں ایسی بہت سی جگہیں ہیں، مثلاً مشہورِ زمانہ ٹیکنو کلب بیرگ ہائن۔
تصویر: Visit Berlin
ہیمبرگ: ریپر بان پر پارٹی
یہاں رنگا رنگ نیون سائن جلتے بجھتے نظر آتے ہیں، کلبوں کے اندر سے موسیقی کی گھن گرج سنائی دیتی ہے، بے فکرے لوگ ایک سے دوسرے کلب میں جاتے دکھائی دیتے ہیں۔ جیسے جیسے شام گہری ہوتی جاتی ہے، ہیمبرگ کے تفریحی علاقے سینٹ پاؤلی کی مرکزی شاہراہ ریپر بان پر ہجوم بڑھتا چلا جاتا ہے۔ سب سے زیادہ مشہور ہیں، ’گولڈن پُوڈل کلب‘، ’مولوٹوف‘ اور ’گروسے فرائی ہائٹ 36‘۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Heimken
میونخ: وی آئی پی جشن کی سہولتیں
جرمن صوبے باویریا میں راتوں کو خاص طور پر گلوکن باخ کے علاقے میں یا پھر شہر کے قدیم حصے میں زیادہ رونق ہوا کرتی ہے۔ اس شہر میں خصوصی پارٹی منانے کے شوقین لوگ "P1" کا رُخ کرتے ہیں۔ اس مشہور ڈِسکو میں ہر کوئی نہیں جا سکتا۔ یہاں لیڈی گاگا، رولنگ اسٹونز اور پیرس ہلٹن جیسے لوگ جشن منا چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Horhager
فرینکفرٹ: ’ہاؤس میوزک‘ کا شہر
آپ رقص کے مُوڈ میں ہیں یا سیب کی خصوصی مقامی شراب کے ساتھ اپنی شام منانا چاہتے ہیں، فرینفکرٹ میں اس کے لیے ہر طرح کا انتظام موجود ہے۔ رات کو آوارہ گردی کے خواہاں لوگ زاکسن ہاؤزن نامی علاقے کا رُخ کرتے ہیں، جہاں ایک کے ساتھ دوسری بار جڑی ہے۔ فرینکفرٹ اپنے لاتعداد کلبوں میں ’ہاؤس میوزک‘ کی پارٹیوں کے لیے بھی شہرت رکھتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Roessler
کولون: لامحدود پارٹی
کولون میں موج مستی کے لیے پہلا پتہ ہے، سُلپیشر شٹراسے۔ ’رُون بُرگ‘ نامی ڈِسکو میں 90ء کے عشرے کی موسیقی اور مشہور نغمات گونجتے رہتے ہیں جبکہ "MTC" میں باقاعدگی کے ساتھ راک موسیقی کے کنسرٹ منعقد ہوتے ہیں۔ رات گہری بھی ہو جائے اور بہت سے کلب بند بھی ہو جائیں تو کوئی بات نہیں، ’وینس سیلر‘ چوبیس گھنٹے کھلا رہتا ہے۔
تصویر: Roonburg
ڈسلڈورف: دنیا کا سب سے لمبا کاؤنٹر
ڈسلڈورف کے قدیمی حصے میں تقریباً نصف مربع کلومیٹر کے علاقے میں تقریباً تین سو ریستوران، ڈسکوز اور بارز ہیں۔ ڈسلڈورف کے مقامی باشندے اسے ’دنیا کا سب سے بڑا کاؤنٹر‘ کہتے ہیں۔ اس شہر کا دل ’بولکر سٹریٹ‘ میں دھڑکتا ہے۔
تصویر: Kuhstall
اشٹٹ گارٹ: ساری رونق ’تھیو‘ پر
جنوبی جرمن شہر اشٹٹ گارٹ میں سب سے زیادہ رونق تھیوڈور ہوئیس سٹریٹ پر ہوتی ہے، جسے مختصراً ’تھیو‘ کہا جاتا ہے۔ یہاں ہاؤس میوزک یا پھر ہِپ ہاپ موسیقی پر خاص طور پر وِیک اَینڈز پر خوب رقص کیا جاتا ہے۔ بہت سے مقامات پر داخلہ مفت ہوتا ہے۔ مشہور کلب ہیں، ’مُٹر مِلش‘ اور ’بار کوڈ‘۔
تصویر: Stuttgart-Marketing GmbH-Gilardone
بوخُم: یہاں پورا رُوہر کا علاقہ جشن مناتا ہے
’بیرمُودا ٹرائی اینگل‘ بحرِ اوقیانوس میں ہی نہیں بوخُم میں بھی ہے۔ یہاں کے علاقے ’رُوہرپوٹ‘ کی رونق سے سالانہ کوئی تین ملین لوگ محظوظ ہوتے ہیں۔ یہاں لوگوں کے لیے اندر اور باہر بیٹھنے کی کوئی دَس ہزار جگہیں ہیں۔
تصویر: Stadt Bochum, Presse- und Informationsamt
لائپسگ: ’کارلی‘ کی کشش
اس مشرقی جرمن شہر کی ’کارل لِیب کنیشٹ‘ سٹریٹ کو مختصراً ’کارلی‘ کہا جاتا ہے۔ یہ علاقہ لائپسگ بھر کے طالب علموں کے لیے کشش رکھتا ہے۔
تصویر: Andreas Schmidt
بریمن: ’فیئرٹل‘ کا لفظ یاد رکھیے
اس شہر میں آپ گھومنا پھرنا چاہتے ہیں تو آپ کو زیادہ رونق ’فیئرٹل‘ نامی علاقے میں نظر آئے گی، جہاں بے شمار ریستوران اور کلب موجود ہیں۔ رات کو سیر و تفریح کے شوقین افراد کو یہاں پانی کے کنارے بھی بیٹھنے اور پینے پلانے کے مواقع میسر آتے ہیں۔