1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت: کئی سرکردہ صحافیوں کے خلاف بغاوت کے مقدمے

صلاح الدین زین ڈی ڈبلیو نیوز، نئی دہلی
29 جنوری 2021

بھارت میں کئی سرکردہ صحافیوں کے خلاف بغاوت کے مقدمات درج کر لیے گئے ہیں۔ ان پر کسانوں کو پر تشدد مظاہروں کی ترغیب دینے کا الزام ہے۔ صحافیوں کی انجمن 'ایڈیٹرز گلڈ' نے اس  کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔

Indien Rajdeep Sardesai
تصویر: Surinder Nagar

ریاست اتر پردیش اور مدھیہ پردیش کی پولیس نے 26 جنوری کو مبینہ طور پر لال قلعے کی فصیل پر سکھ مذہب کا پرچم نصب کرنے اور پرتشدد مظاہروں پر اکسانے کا الزام عائد کرتے ہوئے کانگریس پارٹی کے سرکردہ رہنما ششی تھرور اور ملک کے دیگر چھ سرکردہ صحافیوں کے خلاف بغاوت کے مقدمات درج کیے ہیں۔

 ایف آئی آر میں معروف صحافی راج دیپ سر دیسائی، نیشنل ہیرالڈ کے ایڈیٹر مرنال پانڈے، قومی آوازا کے مدیر ظفر آغا اور کارواں میگزین سے وابستہ اننت ناتھ اور ونود جوز کے نام بھی شامل ہیں۔

ان افراد پر بغاوت کرنے، مختلف گروپوں کے درمیان افراتفری پیدا کرنے، دانستہ طور پر مذہبی جذبات مجروح کرنے، غلط معلومات پھیلانے اور مجرمانہ سازش میں ملوث ہونے جیسے متعدد دیگر الزامات بھی عائد کیے گئے ہیں۔ ایسے الزامات کے ثابت ہونے پر ان صحافیوں کو عمر قید تک کی سزا ہو سکتی ہے۔

صحافیوں کی تنظیم کا رد عمل

بھارت میں صحافیوں کی سب اہم انجمن ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا نے پولیس کی اس کارروائی کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے  کہا کہ اس سے بڑا جھوٹ اور کیا ہو سکتا ہے کہ صحافیوں کی ٹویٹ کی وجہ سے لال قلعے کی توہین کی گئی۔

ایڈٹرز گلڈ آف انڈیا نے پولیس کی اس کارروائی کو ملک کی جمہوریت پر حملہ قرار قرار دیتے ہوئے،’’ میڈیا کو ڈرانے، ہراساں کرنے اور دبانے کی ایک کوشش قرار دیا‘‘۔ اس تنظیم نے اس مقدمے کو فوری طور پر واپس لینے کا مطالبہ کیا بھی ہے، تاکہ میڈیا بلا خوف و خطر آزادی سے اپنا کام کر سکے۔

’بھارت کے زیر انتظام کشمیر ميں صحافت مشکل ترين کام ہے‘

04:44

This browser does not support the video element.

 صحافیوں کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی ایک اہم وجہ یہ بتائی جارہی ہے کہ ریلی کے دوران ٹریکٹر چلانے والے ایک شخص کی موت حادثے کی وجہ سے ہوئی تھی تاہم رپورٹ میں یہ بتایا گیا کہ پولیس کی فائرنگ سے ہلاکت ہوئی اور اسی وجہ سے مظاہرین مشتعل ہو کر لال قلعے میں داخل ہوئے اور تشدد برپا ہوا۔

لیکن ایڈیٹرز گلڈ نے اس حوالے سے ان تمام الزامات کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ احتجاجی مظاہرے کے دوران صحافیوں کے ساتھ ساتھ پولیس کی جانب سے بھی لمحہ بہ لمحہ طرح طرح کی اطلاعات موصول ہو رہی تھیں، لہذا صحافیوں کے لیے تو یہ بالکل فطری عمل تھا  کہ ان تک پہنچنے والی تمام تفصیلات فوری طور پر بتائی جائیں۔ یہ تو صحافتی عمل کے قائم کردہ اصولوں کے عین مطابق ہے۔

صحافی کو چینل سے ہٹا دیا گیا

اس دوران بھارت کے ایک معروف نیوز چینل 'انڈیا ٹوڈے' گروپ نے اپنے کنسلٹینٹ ایڈیٹر اور سرکردہ صحافی راج دیپ سر دیسائی کو ان کی ایک متنازعہ ٹویٹ کے  بعد دو ہفتے کے لیے آف ایئر کر دیا ہے۔

ابتدائی طور پر تقریبا تمام صحافیوں نے ٹریکٹر چلانے والی شخص کی موت کی وجہ پولیس فائرنگ بتائی تھی تاہم جب یہ خبر آئی کہ ان کی موت ٹریکٹر پلٹنے سے ہوئی ہے تو سبھی نے اپنی تصیح کی تھی اور راج دیپ نے بھی اپنی ٹویٹ ڈیلیٹ کردی تھی۔

تقسیم صحافت

بھارت میں صحافیوں کا ایک بڑا گروپ اور کئی نیوز چینلز دائیں بازو کی سخت گیر ہندو قوم پرست حکمراں جماعت بی جے پی اور مودی حکومت کے حامی ہیں۔

ایک نیوز چینل کے ایڈیٹر نے ڈی ڈبلیو اردو سے بات چیت میں نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ حکومت ایسے آزاد صحافیوں سے خوفزدہ ہے، جو حق بات کہنے کی جراءت کرتے ہیں اور، "اسی لیے ان کے خلاف ایسی کارروائیاں کی جا رہی ہیں۔ حکومت کو معلوم ہے کہ اگر ان کو آزاد چھوڑا گیا تو یہ انتظامیہ کو ایکسپوز  کر دیں گے اور اسی لیے موقع ملتے ہیں ان کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔" 

 لیکن حکمراں جماعت بی جے پی کے ترجمان اور سابق صحافی سودھیش ورما پولیس کی کارروائی کو صحیح بتاتے ہیں۔ ڈی ڈبلیو اردو سے بات چیت میں انہوں نے کہا کہ صحافی اگر غلطی کرے گا تو اسے نتائج تو بھگتنے ہی پڑیں گے، ’’تشدد بھڑکا رہے ہیں تو جائیے اور ایجنسی کا سامنا  کیجیے۔ راجدیپ تو پہلے بھی ایسا کر چکے ہیں کیونکہ ان کی رپورٹنگ جانبدارانہ ہوتی ہے۔ وہ سچ کے بجائے چند افراد کو خوش کرنے کے لیے کام کرتے ہیں تو ایسا کیا ہے تو قانون کا سامنا بھی کیجیے۔"  

میڈیا کے لیے مشکل دور

بھارت میں مودی کی حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے ہی میڈیا اور صحافیوں پر قدغن لگانے کا سلسلہ جاری ہے۔ خاص طور پر ریاست اترپردیش میں سب سے زیادہ صحافیوں کے خلاف کیسز درج کیے گئے ہیں۔ ایک غیر سرکاری تنظیم 'رائٹس اینڈ رسک انالیسس گروپ' کے مطابق گزشتہ مارچ سے مئی کے دوران ملک کے مختلف علاقوں میں 55 صحافیوں کے خلاف کیسز درج کیے گئے تھے۔

بھارت میں بعض سیاسی تجزیہ کار اسے غیر اعلانیہ ایمرجنسی قرار دیتے ہوئے میڈیا کے لیے مشکل ترین دور سے تعبیر کرتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق حکومت اپنے خلاف کوئی بھی رپورٹ برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ بعض قومی اخبارات اور ٹی وی چینلوں کو اپنے ایڈیٹروں کو صرف اس لیے نکالنا پڑا کیوں کہ ان کے اداریوں سے حکومت پریشانی محسوس کررہی تھی۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں