1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جہادی گروپوں کی دھمکیاں: انتخابات اور سکیورٹی کے لیے چیلنجز

عبدالستار، اسلام آباد
26 جنوری 2024

ایک تاجک طالبان رہنما کی طرف سے پاکستانی ریاست کو دھمکی اور ایک دوسرے غیر معروف گروپ راہ حق کی طرف سے واپڈا کے ملازمین کے اغوا نے پاکستان میں پرامن انتخابات اور سکیورٹی کے حوالے سے سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔

انتخابات 2024 کے لیے ایک سیاسی جلسہ
تصویر: Farid Ullah Khan/DW

عبدالحمید خراسانی نامی اس عسکریت پسند رہنما نے ایک وڈیومیں دھمکی دی ہے کہ ملا ہیبت اللہ کے حکم پر پاکستان کو دنیا کے نقشے سے مٹایا جا سکتا ہے۔ دوسری طرف راہ حق نامی ایک گروپ نے ٹانک کے علاقے سے تین واپڈا کے ملازمین کو اغوا کر لیا ہے۔ سکیورٹی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس طرح کی کارروائیاں نہ صرف پرامن انتخابات کے لیے خطرناک ہیں بلکہ یہ پاکستان کی سلامتی کے لیے بھی بہت بڑے چیلنجز کھڑے کر سکتی ہیں۔ کئی حلقوں میں ٹی ٹی پی کی پالیسی بھی زیر بحث ہے۔

پاکستان میں جمہوری عمل میں ہماری دلچسپی برقرار رہے گی، امریکہ

پرامن انتخابات کے انعقاد کے لیے فوج تعینات کرنے کا فیصلہ

خراسانی کا یہ بیان سوشل میڈیا پہ بڑے پیمانے پہ شیئر ہوا جس میں اس نے فارسی میںپاکستانی آرمیچیف عاصم منیر کو دھمکی دیتے ہوئے کہا ہے، ''تمہاری کافرانہ اور ظالمانہ حکومت کو جلد ہی ٹی ٹی پی ختم کردے گی۔‘‘

تجزیہ کار فرحت تاج کا کہنا ہے کہ ٹی ٹی پی کے کسی بھی بیان پہ بھروسہ نہیں کیا جا سکتا، ''ایمل ولی خان، فضل الرحمان اور دوسرے سیاسی رہنماؤں کو ٹارگٹ کیا جا سکتا ہے۔ تصویر: AP

خیال کیا جاتا ہے کہ یہ دھمکی آرمی چیف کے ایک خطاب کا رد عمل تھا جس میں انہوں نے افغانستان کی حکومت پرشدید تنقید کی تھی۔

دوسری طرف راہ حق نے واپڈا کے تین مزدوروں کی ایک ویڈیو شیئر کی ہے، جس میں وہ حکومت سے اپیل کر رہے ہیں کہ وہ اس گروپ کے مطالبات مان لے۔ ان مزدوروں کا تعلق پاکستانی صوبہ پنجاب سے ہے۔

دوسری طرف کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے انتخابات اور انتخابی سرگرمیوں کو نشانہ نہ کرنے کا بیان جاری کیا ہے۔

سلامتی کے لیے خطرات

سکیورٹی امور کے ماہر بریگیڈیئر ریٹائرڈ ڈاکٹر راشد ولی جنجوعہ کا کہنا ہے کہ اس طرح کی صورتحال پاکستان کی اندرونی سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' ٹی ٹی پی میں ٹھگوں اور مجرموں نے اسلامی شناخت اور شریعت کے نعرے کے پیچھے پناہ لی ہوئی ہے۔ جتنے بھی نئے گروپ ابھر رہے ہیں ان سب کا الحاق را کی حمایت یافتہ ٹی ٹی پی سے ہے، جسے وہ پاکستان کے خلاف ایک پراکسی کے طور پہ استعمال کرتے ہیں۔‘‘

سکیورٹی امور کے ماہر بریگیڈیئر ریٹائرڈ ڈاکٹر راشد ولی جنجوعہ کا کہنا ہے کہ اس طرح کی صورتحال پاکستان کی اندرونی سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔تصویر: Raashid Wali

ان کا دعویٰ ہے کہ ٹی ٹی پی بے چینی سے کچھ علاقوں پر قبضہ کرنا چاہتی ہے: ''ان کی اس کوشش کو پاکستان آرمی نے ناکام بنایا ہے اسی لیے وہ پاکستان آرمی اور پولیس پر حملے کر رہے ہیں تاکہ وہ سرحدی علاقوں سے پسپا ہو کر نکل جائیں۔‘‘

نئے شدت پسند گروپ، بظاہر ٹی ٹی پی کے پیروکار

کچھ مبصرین کا خیال ہے کہ جو نئے گروپ ابھرے ہیں ان کا طریقہ واردات بالکل ٹی ٹی پی کی ہی طرح ہے۔ اس لیے یہ بڑا خطرہ ہیں۔  پاکستان اور افغانستان میں عسکری تنظیموں پہ گہری نظر رکھنے والے تجزیہ نگار احسان اللہ ٹیپو کا کہنا ہے کہ 2021ء کے بعد بہت سارے چھوٹے موٹے جہادی گروپ نمودار ہوئے ہیں، ''لیکن ان سب کا  طریقہ واردات ٹی ٹی پی یا القاعدہ برصغیر کی طرح کا ہے۔ ان میں سے تحریک جہاد پاکستان نے سات بڑے حملے کیے ہیں۔‘‘

معروف پختون دانشور ڈاکٹر فرحت تاج کا کہنا ہے کہ ان سارے جہادی گروپوں کا نظریہ ایک ہی ہے اور یہ مختلف ناموں سے سکیورٹی اہلکاروں کو ٹارگٹ کر رہے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''یہ پاکستان کے اندرونی سلامتی کے لیے ایک بڑا خطرہ ہیں اور جب تک ان سارے گروپوں کو ایک ساتھ ٹارگٹ نہیں کیا جائے گا اس خطرے سے صحیح طریقے سے نمٹا نہیں جا سکتا۔‘‘

’پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اور طالبان نظریاتی طور پر ایک‘

جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے پختون دانشور ڈاکٹر سید عالم محسود کا کہنا ہے کہ جہادی گروپ پاکستان کی سلامتی کے لیے کوئی خطرہ نہیں بلکہ پاکستان کے اثاثے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''یہ صرف بیانات کی جنگ ہے اور پاکستان کی سلامتی کو اس سے کوئی خطرہ نہیں ہے بلکہ دراصل پاکستانی اسٹیبلشمنٹ، افغان طالبان اور تحریک طالبان پاکستان تینوں نظریاتی طور پر ایک ہی ہیں۔‘‘

معروف پختون دانشور ڈاکٹر فرحت تاج کا کہنا ہے کہ ان سارے جہادی گروپوں کا نظریہ ایک ہی ہے اور یہ مختلف ناموں سے سکیورٹی اہلکاروں کو ٹارگٹ کر رہے ہیں۔ تصویر: Saood Rehman/picture alliance/dpa/EPA

ڈاکٹر محسود کے مطابق پاکستان کی ٹی ٹی پی اور افغان طالبان کے ساتھ موجودہ نام نہاد کشیدگی اس بات کی جانب اشارہ کر رہی ہے کہ خطے میں ایک نئی جنگ ہونے جا رہی ہے: ''جس میں ممکنہ طور پر چینی مفادات کو نقصان پہنچے گا۔‘‘

کیا پر امن انتخابات ممکن ہیں؟

احسان اللہ ٹیپو کا کہنا ہے کہ ٹی ٹی پی نے اپنے بیان میں صرف یہ کہا ہے کہ وہ انتخابات کو ٹارگٹ نہیں کریں گے، ''وہ سکیورٹی اداروں کو ٹارگٹ کریں گے اور انہوں نے اپنے بیان میں عوام سے سکیورٹی اداروں سے دور رہنے کا کہا ہے۔‘‘

فرحت تاج کا کہنا ہے کہ ٹی ٹی پی کے کسی بھی بیان پہ بھروسہ نہیں کیا جا سکتا، ''ایمل ولی خان، فضل الرحمان اور دوسرے سیاسی رہنماؤں کو ٹارگٹ کیا جا سکتا ہے۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے پشتون علاقے ممکنہ طور پر اس دہشت گردی کی لپیٹ میں آ سکتے ہیں۔‘‘

تجزیہ نگار احسان اللہ ٹیپو کا کہنا ہے کہ 2021ء کے بعد بہت سارے چھوٹے موٹے جہادی گروپ نمودار ہوئے ہیں، ''لیکن ان سب کا  طریقہ واردات ٹی ٹی پی یا القاعدہ برصغیر کی طرح کا ہے۔تصویر: Ahsan Ullah Tipu

تاہم احسان اللہ ٹیپو کا خیال ہے کہ ٹی ٹی پی سے زیادہ داعش خون خرابہ کر سکتی ہے:  ''ٹی ٹی پی کے کئی رہنماؤں نے یہ تصدیق کی ہے کہ وہ سیاسی جماعتوں کو ٹارگٹ نہیں کریں گے لیکن داعش نے جمیعت علماء اسلام کے امیدواروں اور کارکنان پر حملے کیے ہیں اور وہ مزید حملے کر سکتے ہیں۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں، ''محسن داوڑ اور ان کی جماعت کے رہنماؤں کو قبائلی علاقوں میں ٹارگٹ کیا گیا ہے، تو کچھ غیر معروف تنظیمیں بھی انتخابات کے دوران سیاست دانوں پر حملے کر سکتی ہیں۔‘‘

ٹی ٹی پی نے بیان کیوں دیا؟

واضح رہے کہ جمعیت علماء اسلام کے رہنما مولانا فضل الرحمان نے کچھ دنوں پہلے افغانستان کا دورہ کیا تھا اور افغان حکام سے پاکستان میں پرامن انتخابات کی ضمانت مانگی تھی۔  خیال کیا جاتا ہے کہ ٹی ٹی پی نے یہ بیان غالباﹰ اسی دورے کی وجہ سے دیا ہے۔ تاہم سکیورٹی امور کے ماہر بریگیڈیئر ریٹائرڈ ڈاکٹر راشد ولی جنجوعہ کا کہنا ہے کہ فضل الرحمان کا طالبان پر اتنا اثر و رسوخ نہیں ہے۔ ''ٹی ٹی پی نے ایسا غالباﹰ افغان حکومت کے احترام میں کیا ہے۔‘‘

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں