1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

دنیا افغانستان میں خواتین کے خلاف صنفی تعصب تسلیم کرے، ملالہ

19 دسمبر 2023

ڈی ڈبلیو کے ساتھ انٹرویو میں ملالہ یوسفزئی نے دنیا بھر کی حکومتوں سے مطالبہ کیا کہ وہ صنفی امتیاز کو انسانیت کے خلاف جرم قرار دیں۔ انہوں نے دنیا کو طالبان کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم نہ کرنے سے بھی خبردار کیا ہے۔

Malala Yousafzai | Tokyo, Japan
تصویر: Rodrigo Reyes Marin/ZUMA/imago images

لڑکیوں کی تعلیم کے لیے سرگرم نوبل انعام یافتہ پاکستانی سماجی کارکنملالہ یوسفزئی نے دنیا سے مطالبہ کیا ہےکہ وہ افغانستان میں "صنفی تعصب" کو تسلیم کرے۔ ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں ملالہ کا کہنا تھا کہ طالبان کے احکامات منظم طریقے سے افغانستان میں لاکھوں خواتین اور لڑکیوں کو عوامی زندگی کے منظر نامے سے ہٹا رہے ہیں۔

  انہوں نے کہا،''ہم سب کو طالبان کا احتساب کرنے کے لیے مزید کچھ کرنا چاہیے۔ سب سے پہلے میں تمام حکومتوں سے مطالبہ کر تی ہوں کہ وہ صنفی امتیاز کو انسانیت کے خلاف جرم قرار دیں۔‘‘ ان کا یہ انٹرویو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے افغانستان کی صورتحال پر بیس دسمبر بروز بدھ منعقد کیے جانے والے اجلاس سے قبل سامنے آیا ہے۔ اقوام متحدہ اس وقت انسانیت کے خلاف جرائم کے نئے معاہدے کا مسودہ تیار اور اس پر بحث کر رہی ہے۔

ملالہ کو لڑکیوں کی تعلیم کے لیے ان کی خدمات کے اعتراف کے طور پر دو ہزار چودہ میں امن کے نوبل انعام سے نوازا گیا تھاتصویر: Reuters/S. Plunkett

ملالہ نے کہا کہ اس مسودے پر تبصروں کے لیے اپریل 2024 کی ابتدائی ڈیڈ لائن سے پہلے، ہمیں تمام رکن ممالک کی ضرورت ہے کہ وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ افغان خواتین کے خلاف صنفی تعصب کے خاتمے کے مقصد کی حمایت کریں اور انسانیت کے خلاف جرائم کے معاہدے کے مسودے میں صنفی امتیاز کے خلاف مبنی زبان کو شامل کریں، اور اسے بین الاقوامی قانون کے تحت وضع کرنے میں مدد کریں۔

خیال رہے کہ ملالہ یوسفزئی اکتوبر 2012 میں پاکستان کی وادی سوات میں طالبان کے حملے کا نشانہ بننے کے بعد برسوں تک زیر علاج رہنے کے بعد صحت یاب ہوئی تھیں۔ تاہم اس کے بعد انہوں نے مزید زور و شور کے ساتھ کم سن لڑکیوں اور خواتین کی تعلیم کے لیے عالمی سطح پر آواز اٹھانا شروع کی۔

اس مقصد کے لیے انہوں نے ملالہ فنڈ کا قیام بھی عمل میں لایا۔ ان کی خدمات کے نتیجے میں انہیں 2014 میں امن کے نوبل انعام سے نوازا گیا تھا۔ افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام کے بعد سے انہوں نے وہاں خواتین کی تعلیم اور ان پر دیگر پابندیوں کے خلاف بھی کھل کر آواز اٹھائی۔

ڈی ڈبلیو کے ساتھ انٹرویو میں ان کا کہنا تھا "صنفی تعصب سے متعلق ضابطہ ترتیب دینے کا عمل ترقی کے لیے اہم ہے، لیکن میں یہ بھی جانتی ہوں کہ اس میں کافی وقت لگے گا۔" ملالہ نے کا کہنا تھا کہ اس دوران کسی بھی حکومت، اقوام متحدہ کے اہلکار یا کارپوریٹ لیڈر کو طالبان کے ساتھ تعلقات معمول پر نہیں لانے چاہیے کیونکہ ان کے بقول یہ خواتین اور لڑکیوں کی بنیادی آزادیوں سے انکار کو ایک معمول بنا دے گا اور  اس سے صنفی مساوات کے لیے عالمی ترقی کو خطرہ لاحق ہو گا۔

طالبان کے اقتدار میں لوٹنے کے بعد سے افغانستان میں خواتین کو سخت ترین پابندیوں کا سامنا ہےتصویر: FAROOQ NAEEM/AFP/Getty Images

ملالہ کا کہنا تھا کہ افغانستان میں اسکولوں پر پابندی کے دوران  ہمیں لڑکیوں کی تعلیم جاری رکھنے میں مدد کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا، ''مخیر حضرات اور سرمایہ کار افغان اور بین الاقوامی تنظیموں کے لیے اپنی فنڈنگ ​​میں اضافہ کر سکتے ہیں، جو افغان لڑکیوں کو ان کے گھروں تک تخلیقی متبادل اور ڈیجیٹل زریعے سے تعلیمی پروگرام فراہم کر رہی ہیں۔‘‘

ملالہ کا کہنا تھا کہ دنیا کے مختلف ملکوں کے شہریوں بشمول طلبہ، حقوق نسواں اور انسانی حقوق کے محافظوں اور مذہبی رہنماؤں کو طالبان پر عوامی دباؤ بڑھانا چاہیے اور صنفی تعصب کے خاتمے کے لیے مہم کی حمایت کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا، ''ہمیں افغان خواتین اور لڑکیوں کو ایک واضح پیغام بھیجنا چاہیے کہ ہم انہیں دیکھتے ہیں، ہم ان کی پکار سنتے ہیں اور ہم ان ست یکجہتی کے لیے تیار ہیں۔‘‘

ش ر / ع ت

افغانستان: لڑکیوں کی تعلیم صرف پرائمری اسکول تک

01:52

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں