1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
انسانی حقوقسعودی عرب

سعودی عرب: سزائے موت پر عمل درآمد سے اصلاحات کا عمل مشکوک

4 فروری 2023

تجزیہ کاروں کے مطابق نظام کی تبدیلی کی سعودی کوششوں کے باوجود سیاسی آزادیاں ابھی تک نظروں سے اوجھل ہیں۔ تاہم کھیلوں کے بین الاقوامی مقابلوں کی میزبانی مستقبل میں حکومت کے طرز عمل میں فرق پیدا کرنے کا سبب بن سکتی ہے۔

Saudi-Arabien Kronprinz des Königreich Mohammed bin Salman
تصویر: IMAGO/Le Pictorium

سعودی  ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان یا ایم بی ایس کے 2017 ء میں ملک کا  ’’پس پردہ حکمران‘‘ بننے کے بعد سے سعودی عرب میں  دو متضاد پیش رفت ہوئی ہیں۔ اس قدامت پسند اسلامی ملک کو طویل مدت میں ایک جدید ریاست کی شکل دینے کے منصوبے  جسے ’’سعودی وژن 2030‘‘ کا نام دیا گیا ہے، جس کے تحت حکومت نے تیل سے اپنی معیشت کو متنوع بنانا شروع کر دیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ملک کو سیاحت کے لیے کھول دیا گیا  ہے اور خواتین کے حقوق کو بہتر بنایا جارہا ہے۔

سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے تیل کی آمدنی پر انحصار کم کرنے کے ساتھ ساتھ کسی حد تک معاشرے میں آزادی دینے کی پالیسی پر عمل درآمد شروع کر رکھا ہےتصویر: Fayez Nureldine/AFP/Getty Images

ان اقدامات کے متوازی ریاض حکومت معاشرے پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لیے تیزی سے انسداد دہشت گردی کے قوانین کا بھی سہارا لے رہی ہے۔ سعودی  حکام ان قوانین کا استعمال کر کے اپنی پالیسیوں کے مخالف انسانی حقوق کے کارکنوں، سول سوسائٹی کے ارکان اور بعض مذہبی اسکالرز کو نشانہ بنا رہے ہیں۔

سزائے موت میں اضافہ 

اس دوران ملک میں پھانسیوں کی تعداد میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ سزائے موت کے خلاف بین الاقوامی تنظیم ریپریوو اور برلن میں قائم یورپی سعودی آرگنائزیشن فار ہیومن رائٹس (ای او ایس ایچ آر) کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق 2015 ء کے بعد سے سعودی عرب میں موت کی سزاؤں کی تعداد تقریباً دوگنی ہو گئی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق 2010 ء سے 2014ء کے درمیان اوسطاً 70 پھانسیاں دی گئیں جبکہ 2015 ء سے  2022 ء کے درمیان یہ تعداد بڑھ کر 129.5 ہوگئی۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے، ''پھانسیوں کی اوسط تعداد میں 82 فیصد اضافہ ہوا ہے حالانکہ ملک نے بیرونی دنیا میں اپنی ایک جدید تصویر پیش کی ہے۔‘‘

ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں ای ایس او ایچ آر کے ڈائریکٹر علی ادوبیسی نے اس متضاد ترقی کی وجوہات کی وضاحت کی، ''ایم بی ایس کے ذریعہ جدیدیت کا تصور منتخب اور سیاسی مزاج کے تابع ہے۔ پھانسی ایم بی ایس کے جابرانہ رویے کا ایک لازمی جزو ہے، جس کے ذریعے وہ اپنے لوگوں کو ڈرانے کی مشق کرتے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ خاموشی کو یقینی بنایا جا سکے۔‘‘

اس خیال کی تصدیق لندن میں قائم انسانی حقوق کی تنظیم القسط میں وکالت کی سربراہ جولیا لیگنر نے کی ہے جو سعودی عرب میں انسانی حقوق کے دفاع اور فروغ پر توجہ مرکوز کرتی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اگر حکام اصلاحات کے بارے میں سنجیدہ ہوتے تو وہ سعودی عوام کو اہمیت دیتے۔ تاہم ایسی جگہ جہاں کوئی آزاد سول سوسائٹی نہیں ہے، وہاں حکام کی طرف سے اصلاحات ملک کے اندر اور باہر تنقید کو خاموش کرنے کا ایک سیاسی ذریعہ ہیں۔‘‘

سعودی عرب مذہبی اسکالرز پر بھی شکنجہ کس رہا ہے۔ یہ تصویر مقبول عالم دین سلمان عودہ کی ہے ، جو حکومتی پالیسیوں کی مخالفت کی وجہ سے جیل میں ہیں۔تصویر: AFP

جرمنی میں قائم سینٹر فار اپلائیڈ ریسرچ ان پارٹنرشپ ود دی اورینٹ (CARPO) کے سینئر محقق سیباسٹیان سنز نے اس بات سے اتفاق کیا کہ سعودی عرب کے معاشی تنوع اور  سماجی لبرلائزیشن کے باوجود ا س کے سیاسی طورپر کھلنے کے آثار بہت کم ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''درحقیقت، اس کے بالکل برعکس معمول بن گیا ہے کیونکہ جبر ایم بی ایس  کے تحت سعودی حکمرانی کا ایک لازمی حصہ بن گیا ہے۔‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ حکومت نے بارہا اس بات پر بھی زور دیا ہے کہ جن لوگوں کو موت کی سزا دی جا رہی ہے وہ دہشت گرد ہیں اور ان کے ٹرائل اندرونی معاملات ہیں جن میں مغرب کو مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔

قانونی تشریح کا فقدان

اگرچہ سن 2018 میں ترکی کے شہر استنبول میں سعودی قونصل خانے میں سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل نے دنیا بھر میں بڑے پیمانے پر غم و غصہ پیدا کیا اور سعودی عرب کو عارضی طور پر تنہا کر دیا تھا لیکن انسانی حقوق کے کارکنوں یا حکومت کے ناقدین کے خلاف زیادہ تر مقدمات بین الاقوامی توجہ مبذول کرنے میں ناکام رہے۔

اس طرح کے ٹرائل سعودی خصوصی فوجداری عدالت یا ایس سی سی میں باقاعدگی سے ہوتے ہیں، جس کا دائرہ اختیار دہشت گردی اور ریاستی سلامتی سے متعلق مقدمات پر ہوتا ہے۔ لیکن 2022 ء میں وہاں کے ججوں نے دو خواتین سلمیٰ الشہاب اور نورہ بنت سعید القحطانی کو خواتین کے حقوق کے کارکنوں کی پوسٹس کو ری ٹویٹ کرنے پر بالترتیب 35 سال اور 45 سال قید کی سزا سنائی۔

سوئزرلینڈ میں  میں مقیم انسانی حقوق کی تنظیم مینا  کے قانونی اور پالیسی افسر رمزی کائس نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''دہشت گردی کی سعودی تعریف مؤثر طریقے سے عدلیہ کو سخت سزائیں دینے کی صوابدید فراہم کرتی ہے، جس میں سزائے موت اور محض حکومت پر تنقید کرنے والے افراد کے خلاف بے مثال طویل قید کی سزائیں شامل ہیں۔‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ قوانین کی تشریح  واضح نہیں تھی،''مثال کے طور پر انسداد دہشت گردی کا قانون دہشت گردی کے جرم کی تعریف کرتا ہےکوئی بھی ایسا عمل جو امن عامہ کو خراب کرنے، قومی سلامتی یا ریاستی استحکام کو غیر مستحکم کرنے یا قومی اتحاد کو خطرے میں ڈالنے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن حقیقت میں یہ قوانین اس بارے میں وضاحت نہیں کرتے۔‘‘

آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ 2023ء فیفا ویمنز ورلڈ کپ کے لیے فٹ بال ڈرا کی تقریبتصویر: William West/AFP

انسانی حقوق کا فائدہ اٹھانا

سیباسٹیان سنز نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ انہیں یقین ہے کہ سعودی سلطنت انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تمام بین الاقوامی ردعمل پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے۔ سعودی عرب کھیلوں کے اگلے عالمی مقابلوں کی میزبانی کا بھی خواہاں  ہے۔ انہوں نے کہا،’’سعودی عرب کے اندر انسانی حقوق کے بارے میں بحث بہت جلد تیز ہو سکتی ہے۔‘‘

رواں  ہفتے کے آغاز پر سعودی ٹورسٹ اتھارٹی نے اعلان کیا تھا کہ سعودی عرب اگلے سال جولائی میں آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں ہونے والے فیفا ویمنز ورلڈ کپ کا باضابطہ اسپانسر ہوگا۔ اس بیان پر آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کی کھیلوں کی تنظیموں نے احتجاج کیا اور فیفا کے پاس شکایات درج کرائی ہیں۔  ان کا کہنا ہے کہ سعودی عرب میں  2017 ء سے پہلے خواتین کو فٹ بال کھیلنے اور یہاں تک کہ اسٹیڈیم میں داخلے کی بھی اجازت نہیں تھی۔

سعودی عرب پہلے ہی 2027ء میں ایشین فٹ بال کپ، 2029 ء میں ایشین ونٹر گیمز کی میزبانی کرنے والا ہے اور اگر یونان اور مصر کے ساتھ اس کی بولی کامیاب ہوتی ہے تو سن 2030 میں فیفا مینز ورلڈ کپ کی میزبانی بھی کرے گا۔

جینیفر ہولیس (ش ر ⁄ ع آ)

سعودی ڈی جے خواتین روایتی تھاپ کو بدلتے ہوئے

05:12

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں