1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتاسرائیل

غزہ میں امداد پہنچانے کے لیے برطانوی فوج کی خدمات ممکن؟

27 اپریل 2024

غزہ میں امدادی سامان کی ترسیل کے لیے برطانوی فوج تعینات کی جا سکتی ہے۔ ادھر امریکی اسٹوڈنٹس کی طرف سے اسرائیل اور حماس کے مابین جاری مسلح تنازعے کے خلاف شروع ہونے والے احتجاج کا سلسلہ یورپی شہروں میں بھی پہنچ گیا ہے۔

Israelische Militärfahrzeuge an der Grenze zum Gazastreifen
تصویر: Jack Guez/AFP

خبر رساں ادارے اے پی نے برطانوی نشریاتی ادارے کے حوالے سے بتایا ہے کہ غزہ پٹی میں امدادی سامان کی فوری فراہمی کی خاطر برٹش دستوں کو تعینات کیا جا سکتا ہے۔ تاہم لندن حکومت نے ان خبروں پر فی الحال کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا ہے۔

برطانوی نشریاتی ادارے کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ غزہ کے ساحل پر جو فلوٹنگ پلیٹ فارم بنا رہا ہے، وہاں سے غزہ میں امدادی سامان فلسطینوں کو پہنچانے کی خاطر برطانوی فوج کی خدمات حاصل کی جا سکتی ہیں۔

غیر مصدقہ ذرائع کے مطابق برطانوی وزیر اعظم رشی سوناک کو ابھی تک اس بارے میں سرکاری طور پر کوئی درخواست موصول نہیں ہوئی ہے۔ اے پی کے مطابق حکومتی حلقوں میں بھی اس بارے میں ابھی تک کوئی باقاعدہ بحث نہیں ہوئی ہے۔

ایک اعلیٰ امریکی فوجی اہلکار نے اپنا نام خفیہ رکھنے کی شرط پر بتایا ہے کہ غزہ کے ساحلی علاقے میں تعمیر کی جا رہی عارضی بندرگارہ کے ذریعے جو سامان غزہ پٹی میں پہچایا جائے گا، اس کی ڈٰیلیوری کی خاطر کوئی امریکی فوجی استعمال نہیں کیا جائے گا بلکہ کسی دوسرے ملک کی خدمات حاصل کی جائیں گی۔

واضح رہے کہ غزہ میں امدادی سامان کی فوری ترسیل کی خاطر امریکہ نے غزہ کے ایک ساحلی علاقے میں عارضی بندرگاہ بنانے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس فلوٹنگ پلیٹ فارم کی تیاری میں برطانوی فوجی بھی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔

غزہ پٹی میں امدادی سامان پہنچانا مشکل کیوں؟

01:48

This browser does not support the video element.

غزہ پٹی میں اسرائیلی حملے بدستور جاری

غزہ پٹی میں اسرائیلی جوابی حملوں کو اب تقریباﹰ سات ماہ ہونے والے ہیں۔ غزہ پٹی کی زیادہ تر آبادی بے گھر ہو چکی ہے جبکہ وہاں خوارک، پانی اور ادویات کی فوری ضرورت ہے۔

سات اکتوبر کو حماس کے جنگجوؤں نے غزہ پٹی سے نکل کر اسرائیلی سرزمین پر حملے کیے تھے، جن میں کم از کم بارہ سو افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

حماس کے یہ جنگجو واپس فرار ہوتے ہوئے تقریباﹰ دو سو چالیس افراد کو بطور یرغمال اپنے ساتھ غزہ لے گئے تھے۔ اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ اب بھی کم از کم ایک سو تیس یرغمالی ان عسکریت پسندوں کی قید میں زندہ ہیں۔

حماس کی اس دہشت گردانہ کارروائی کے بعد اسرائیلی دفاعی افواج نے غزہ میں حماس کے عسکری ٹھکانوں پر حملے شروع کر دیے تھے۔ غزہ پٹی میں حماس کے طبی ذرائع کا دعویٰ ہے کہ اسرائیلی فورسز کی ان کارروائیوں کے نتیجے میں چونتیس ہزار سے زائد فلسطینی مارے جا چکے ہیں۔

فائر بندی کی کوششیں جاری

اس اسرائیلی کارروائی کے طول پکڑنے کے نتیجے میں اب عالمی طور پر دباؤ بڑھ رہا ہے کہ اسرائیل کسی سیز فائر کی ڈٰیل پر متفق ہو جائے۔ اس سلسلے میں عالمی طاقتوں کی ثالثی میں کوششیں جاری ہیں۔

تازہ ترین اطلاعات کے مطابق اسرائیل نے فائر بندی کی ایک تجویز دی ہے، جس پر حماس کے جنگجو غور کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں ایک مصری وفد اسرائیل کا دورہ بھی کر رہا ہے۔

حماس نے تصدیق کی ہے کہ تیرہ اپریل کو انہیں مصر اور قطر کی ثالثی کے نتیجے میں اسرائیل کی طرف سے ایک مسودہ موصول ہوا تھا، جس کے بغور مطالعہ اور تجزیے کے بعد یہ جنگجو گروہ اپنا جواب دے گا۔

امریکہ میں شروع ہونے والے مظاہرے یورپ پہنچ گئے

اسرائیل اور حماس کے مابین جاری مسلح تنازعے کے خلاف امریکی یونیورسٹیوں میں شروع ہونے والے احتجاج کا سلسلہ یورپی شہروں میں بھی پہنچ گیا ہے۔ میڈیا رپورٹوں کے مطابق برطانیہ، فرانس اور جرمنی میں بھی طالب علموں نے احتجاج شروع کر دیا ہے۔ ان اسٹوڈنٹس کا مطالبہ ہے کہ اسرائیل اور حماس کے مابین جاری مسلح تنازعہ ختم کرایا جائے۔

پولیس کی طرف سے کریک ڈاؤن کے باوجود ہفتے کے دن امریکی اسٹوڈنٹس نے کہا کہ وہ اپنے احتجاج کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔ کچھ واقعات میں پولیس اور اسٹوڈنٹس کے مابین تصادم بھی ہوا جبکہ سینکڑوں طالب علموں کو گرفتار بھی کر لیا گیا۔

امریکی یونیورسٹیوں کے متعدد فیکلٹی ممبران نے یونیورسٹیوں کے احاطے میں پولیس اہلکاروں کو داخل ہونے کی اجازت پر کڑی تنقید کی ہے۔ واضح رہے کہ متعدد یونیورسٹیوں کے اعلیٰ حکام نے اسٹوڈنٹس کے دھرنے ختم کرانے کی خاطر پولیس کو ایکشن لینے کی اجازت دے دی ہے۔

یاد رہے کہ امریکہ میں کولمبیا یونیورسٹی کے نیو یارک کیمپس کے اسٹوڈنٹس نے کئی ماہ قبل یہ احتجاج شروع کیا تھا۔ ان طالب علموں نے کیمپس میں خیمے لگا کر دھرنا دینا شروع کیا تھا۔ تاہم ان مظاہروں میں اس وقت شدت آئی، جب گزشتہ ہفتے حکام نے پولیس کو کیمپس میں داخل ہونے کی اجازت دی۔

ع ب/ ع  آ /  ع س (اے پی، اے ایف پی)

اسرائیل جنگ کا متمنی نہیں، اسرائیلی صدر

01:31

This browser does not support the video element.

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں