1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
ماحولعالمی

ماحولیاتی تبدیلیاں انسانی بحرانوں میں اضافے کا باعث

14 دسمبر 2022

ایک بین الاقوامی تنظیم نے اپنی ایک مطالعاتی رپورٹ میں متنبہ کیا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے اگلے برس ہیومینیٹیریئن بحرانوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

Angola Dürre im Süden Namibe
تصویر: Adilson Abel Liapupula/DW

بین الاقوامی تنظیم انٹرنیشنل ریسکیو کمیٹی (آئی آر سی) کے مطابق اگلے برس ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے انسانی بحرانوں میں اضافہ ہو سکتا ہے اور یہ ہیومینیٹیریئن بحران جنگی تنازعات اور اقتصادی تباہ حالی کہ وجہ سے پیدا ہونے والے بحرانوں کے علاوہ ہیں۔

بھوک کا تاریخی اور سماجی پس منظر

دنیا میں بھوک اور افلاس میں اضافہ

نیویارک میں قائم اس ادارے کے سربراہ اور سابق برطانوی سیاست دان ڈیویڈ ملی بینڈ نے کہا کہ گزشتہ ایک دہائی میں انسانی بنیادوں پر امداد کے ضرورت مندوں کی تعداد تین سو انتالیس اعشاریہ دو ملین تک پہنچ چکی ہے۔

اس ادارے کے مطابق انسانی بحرانوں کا موجب بننے والے محرکات میں ایک اہم عنصر ماحولیاتی تبدیلی کا ہے۔ اس تنظیم کے مطابق اس کی ایمرجنسی واچ لسٹ میں افغانستان اور ہیٹی سمیت بیس ممالک ہیں اور یہ تمام ممالک عالمی سطح پر ضرر رساں گیسوں کے اخراج کا قریب دو فیصد خارج کرتے ہیں۔

اس رپورٹ کے مطابق، ''دو ہزار بائیس نے عالمی سطح پر ہیومینیٹیریئن بحرانوں میں تیزی میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے کردار کےناقابل تردید شواہد پیش کیے ہیں۔‘‘

اس رپورٹ میں مختلف ممالک میں بارشوں میں غیرمعمولی اضافے اورصومالیہ اور ایتھوپیا میں فوڈ سکیورٹی کی تباہ حال صورتحال کا ذکر کیا گیا ہے، جب کہ پاکستان میں شدید سیلابوں سے ہونے والی ہلاکتوں پر بھی بات کی گئی ہے۔

آئی آر سی کے مطابق عالمی سطح پر ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے اور تحفظ کے شعبے میں مزید سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔

اس مطالعاتی رپورٹ میں یوکرینی جنگ کا حوالہ دے کر کہا گیا ہے کہ کہ عالمی سطح پریوکرین پر روسی حملےاور کورونا کی وبا نے فوڈ سکیورٹی کو ایک بحرانی صورتحال میں بدل کر دیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں ہیومینیٹیریئن ضروریات اور ان کے لیے سرمایہ نومبر کے مہینے تک ستائیس ارب کی کمی کا شکار دیکھا گیا ہے۔

دنیا میں خشک سالی کے تباہ کن اثرات

03:08

This browser does not support the video element.

رپورٹ کے مطابق، ''ڈونرز بحرانوں کی شدت کے مقابلے میں نہایت کم سرمایہ فراہم کر رہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ متاثرہ کمیونٹیز  ان اشیائے ضروریات تک رسائی سے محروم ہیں جو ان کی بقا، بحالی اور تعمیر نو کے لیے ضروری ہیں۔‘‘

ایمرجنسی واچ لسٹ میں مختلف ممالک میں بے گھر ہونے والے افراد کی تعداد میں اضافے کا بھی بتایا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق بے گھر افراد کی تعداد سن دو ہزار چودہ میں ساٹھ ملین تھی جو اب بڑھ کر سو ملین سے تجاوز کر چکی ہے۔

ع ت، ک م (روئٹرز)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں