1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان پیپلز پارٹی، اسٹیبلشمنٹ کا نیا انتخاب؟

5 جون 2023

سیاسی عتاب کے شکار پی ٹی آئی کے سابق اراکین اسمبلی اور رہنماؤں کی پی پی پی میں شمولیت نے ان قیاس آرائیوں کو تقویت دی ہے کہ آئندہ اقتدار کا ہما پیپلز پارٹی ہی کے سر بٹھایا جائےگا۔

Pakistan Politiker-Bhutto-Familie Bilawal Bhutto und Asif Ali Zardai Bhutto
تصویر: Imago/Zuma/PPI

حالیہ ہفتوں میں سیاسی توڑ پھوڑ کا شکار ہونے والی حزب اختلاف کی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے سابق اراکین اسمبلی اور رہنما جوق در جوق پاکستان پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کررہے ہیں۔ اس صورتحال نے ملکی سیاست کے ماضی پر نظر رکھنے والوں کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہےکہ کہیں اسٹیبلشمنٹ مستقبل میں اقتدار کا ہُما پی پی پی کے سر بٹھانے کا فیصلہ تو نہیں کر چکی؟

روٹھے ہو تم، تم کو کیسے مناؤں پیا!

آصف علی زرداری کو سیاسی جوڑ توڑ کا ماہر مانا جاتا ہےتصویر: B.K. Bangash/dpa/AP/picture alliance

پی پی پی پنجاب سے تعلق رکھنے والے ایک رہنما نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو ایک فہرست بھی بھیجی، جس میں جنوبی پنجاب کے اضلاع ملتان، مظفرگڑھ، خانیوال، وہاڑی، لودھراں، بہاولنگر، بہاولپور کے علاوہ میانوالی سمیت کئی علاقوں سے ایسے پی ٹی آئی رہنماؤں کے نام اور حلقوں کے نمبردرج ہیں، جو بقول اس رہنما کے پی پی پی میں شمولیت اختیار کر چکے ہیں۔

'عثمان بزدار عمران خان کے خلاف ہی وعدہ معاف گواہ بھی بن سکتے ہیں'

پی پی پی، جی ایچ کیو' گٹھ جوڑ‘

کئی ناقدین پی ٹی آئی والوں کی سیاسی وفاداریوں میں تبدیلی کے پیچھے جی ایچ کیو کی آشیر باد دیکھتے ہیں۔ لاہور میں مقیم ایک سیاسی تجزیہ نگار احسن رضا کا کہنا ہے کہ پیپلزپارٹی پوری کوشش کر رہی ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کی نئی ڈارلنگ بن جائے۔ احسن رضا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' یہ واضح ہے کہ زرداری کی اسٹیبلشمنٹ سے کوئی ڈیل ہو چکی ہے۔ ساؤتھ پنجاب سے بڑی تعداد میں سیاست داں اور  سابق اراکین اسمبلی پیپلز پارٹی جوائن کرنے جا رہے ہیں جبکہ بلوچستان میں باپ پارٹی، جس کے زیادہ تر رہنما اسٹبلشمنٹ نواز ہیں، نے بھی پیپلز پارٹی جوائن کرلی ہے۔‘‘ احسن رضا کے مطابق، '' اس صورتحال کے پیش نظر یہ کہنا مشکل نہیں ہے کہ اگلی بار پھر زرداری کی ہوگی اور یقیناﹰ یہ باری اسٹیبلشمنٹ کی آشیرباد سے ہی آئے گی۔‘‘

کریک ڈاون: پاکستانی خواتین کی سیاست میں عملی شرکت کو دھچکہ

 نظریات سے متاثر

ناقدین کا خیال ہے کہ پی ٹی آئی کے اوپر مقتدر قوتوں کی طرف سے دباؤ ہے اور ان کے اراکین اسمبلی اور رہنماؤں کو مجبور کیا جا رہا ہے کہ وہ پارٹی چھوڑیں یا سیاست سے لاتعلقی اختیار کریں۔ تاہم تلہ گنگ سے تعلق رکھنے والی پی ٹی آئی کی ایک سابقہ رہنما خالدہ پروین اس کی تردید کرتی ہیں۔

پاکستانی سیاست میں اب تحریک انصاف کا مستقبل کیا ہو گا؟

خالدہ پروین نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' میں نے پی ٹی آئی میں رہتے ہوئے بہت زیادہ جدوجہد کی۔ جیل بھرو تحریک میں حصہ لیا۔ عمران خان کے جلسے میں ایک موقع پر ہزاروں خواتین لے کر گئی۔ اسی طرح اسد عمر کے جلسے میں بہت ساری خواتین کو میں نے جمع کیا لیکن پی ٹی آئی آخرکار ایک ناچ گانے والی پارٹی نکلی، جس میں کارکنان کی کوئی عزت نہیں ہے۔‘‘

خالدہ پروین کا دعویٰ تھا کہ انہوں نے پاکستان پیپلز پارٹی کے نظریاتی فلسفے سے متاثر ہو کر پارٹی میں شمولیت اختیار کی ہے۔ '' پی پی پی رہنماوں نے مجھے پارٹی میں شمولیت کی دعوت دی اور میں اب صوبائی اسمبلی کا انتخاب لڑنے کا ارادہ رکھتی ہوں۔‘‘

 پورے پنجاب میں پی پی پی

خیال کیا جاتا ہے کہ جنوبی پنجاب میں پاکستان پیپلز پارٹی کا ہمیشہ زور رہا ہے اور وہی لوگ اس جماعت میں واپس آرہے ہیں جو ماضی میں پاکستان پیپلز پارٹی میں تھے اور جنرل شجاع پاشا کے دور میں، جب تحریک انصاف کو اقتدار سنبھالنےکے لیے تیار کیا جا رہا تھا تو پی پی کے یہ رہنما اس وقت پی ٹی آئی میں شامل ہوگئے تھے۔

عمران خان خان ماضی میں کھل کر آصف زرداری کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیںتصویر: Imago/DW

تاہم سینئیر صحافی اور سیاسی تجزیہ نگار امتیاز عالم اس تاثر سے اختلاف کرتے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' پی پی پی صرف جنوبی پنجاب میں ہی نہیں بلکہ دوسرے علاقوں میں بھی موجود ہے۔  قومی اسمبلی کے اسپیکر شمالی پنجاب سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ وسطی پنجاب میں بھی پیپلزپارٹی مختلف جگہوں پر موجود ہے۔ تو شمولیت صرف جنوبی پنجاب تک محدود نہیں رہے گی۔‘‘

عوام اور فوج کے خلاف سازشوں کو شکست دیں گے، آرمی چیف

'ڈارلنگ شہباز ہی رہے گا‘

کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ پیپلزپارٹی جتنی بھی کوشش کر لے وہ مقتدر حلقوں میں قبولیت کے حوالے سے شہباز شریف کو شکست نہیں دے سکتی۔ تجزیہ نگار سہیل وڑائچ کا کہنا ہے اگر اسٹیبلشمنٹ پی ٹی آئی کو گرانا چاہتی ہے تو اس کے لیے غالباﹰ اسے نون لیگ کا ساتھ دینا پڑے گا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، پیپلزپارٹی ممکنہ طور پر جنوبی پنجاب میں کچھ نشستیں جیت سکتی ہیں لیکن وسطی اور شمالی پنجاب میں اس کا ووٹ بینک نہ ہونے کے برابر ہے، تو اس صورتحال میں اگر پی ٹی آئی کو شکست دینی ہے تو غالبا جی ایچ کیو کو نون لیگ کا ساتھ دینا پڑے گا۔‘‘

 سہیل وڑائچ کے مطابق ق یہ ممکن ہے کہ جی ایچ کیو پوری نون لیگ کے لیے ہمدردی نہ رکھتا ہو لیکن وہ شہباز شریف سے بہت خوش ہیں۔ ''میرا خیال ہے کہ پہلے نمبر پر جی ایچ کیو کی اگر کوئی ڈارلنگ ہے تو وہ شہباز شریف ہے ممکنہ طور پر پیپلز پارٹی دوسرے نمبر پر ہو گی۔‘‘

 ’کسی کے پیارے نہیں‘

پاکستان پیپلز پارٹی اس تاثر کو رد کرتی ہے کہ وہ کسی کے اشارے پر سیاستدانوں کو اپنی جماعت میں جگہ دے رہی ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے ایک رہنما اور سابق ڈپٹی چیئرمین سینیٹ صابر علی بلوچ کا کہنا ہے کہ جنوبی پنجاب سے زیادہ تر لوگ جو پارٹی میں شمولیت اختیار کر رہے ہیں وہ ماضی میں پارٹی کا حصہ رہے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''شمولیت کرنے والوں کے خاندان کے کئی افراد اب بھی پیپلز پارٹی میں ہیں۔ ہم کسی کے ڈارلنگ نہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ زرداری صاحب کے نہ صرف جنوبی پنجاب میں معزز سیاستدانوں سے ذاتی مراسم ہیں بلکہ ان کے بلوچستان میں بھی کئی رہنماؤں سے ذاتی مراسم ہیں۔‘‘

صابر علی بلوچ کے مطابق ان کے خیال میں لوگ  زرداری صاحب کی سیاسی فہم و فراست کو دیکھ کر کر پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کر رہے ہیں۔

بدترین کریک ڈاؤن کا سامنا ہے، عمران خان

07:43

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں