1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتپاکستان

پشاور بم دھماکہ: خود کش حملہ آور پولیس کی وردی میں تھا

2 فروری 2023

انسپکٹر جنرل کے پی کے پولیس کے مطابق پولیس کی وردی میں ملبوس حملہ آور تنہا نہیں تھا بلکہ اس کے پیچھے ایک پورا نیٹ ورک ہے۔ پولیس ذرائع کے مطابق اس خودکش حملے کے بعد پولیس لائن کے اندر اہلکاروں سے بھی تفتیش جاری ہے۔

Pakistan Peshawar Explosion der Polizeilinie
تصویر: Faridullah Khan/DW

خیبر پختونخوا پولیس کے سربراہ نے پشاور خود کش حملے میں سکیورٹی کی ناکامی کو تسلیم کرتے ہوئے کہا ہے کہ ڈیوٹی پر موجود اہلکاروں نے پولیس کی وردی میں ملبوس ہونے کی وجہ سے خود کش حملہ آور کی تلاشی نہیں لی تھی۔ پیر کے روز کیے گئے اس حملے میں 100 سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ پاکستانی صوبے خیبر پختونخوا میں پولیس کے سربراہ معظم جاہ انصاری نے ایک نیوز کانفرنس میں بتایا، ''ڈیوٹی پر موجود عملے نے حملہ آور کی چیکنگ نہیں کی تھی کیونکہ وہ پولیس کی وردی میں تھا۔ یہ سکیورٹی انتظامات میں کوتاہی تھی۔‘‘

پیر کے روز پشاور پولیس لائن میں ہوئے اس خود کش حملے میں ایک سو سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تھےتصویر: Fayaz Aziz/REUTERS

آئی جی انصاری کا کہنا تھا کہ جائے وقوعہ سے ملنے والے اس دہشت گرد کے سر کے حفاظتی کیمروں سے حاصل کردہ تصاویر کے  ساتھ موازنے کے بعد پولیس کو اس بارے میں اب 'بہتر اندازہ‘ ہو گیا ہے کہ یہ خود کش بمبار کون تھا۔ انہوں نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ حملہ آور نے اس حملے کی منصوبہ بندی اکیلے نہیں کی تھی، ''اس کے پیچھے ایک پورا نیٹ ورک ہے۔‘‘

سکیورٹی حکام اس پہلو سے بھی تحقیقات کر رہے ہیں کہ شہر کے حساس ترین علاقوں میں سے ایک میں پولیس لائن میں حفاظتی انتظامات کی اتنی بڑی خلاف ورزی کیسے ممکن  ہوئی، وہ بھی اس وقت جب انٹیلیجنس اور انسداد دہشت گردی کے محکموں کے دفاتر بھی وہیں ہیں اور یہ جگہ علاقائی سیکرٹریٹ کے بھی بالکل قریب ہے۔

پشاور میں یہ خود کش بم حملہ گزشتہ کئی سالوں کے دوران پاکستان کے کسی بھی شہر میں کیا گیا سب سے ہلاکت خیز اور 2021 ء میں کابل پر افغان طالبان کے دوبارہ قبضے کے بعد سے خطے میں خونریز حملے پھر شروع ہو جانے کے بعد سے اب تک کا بدترین حملہ ہے۔

پشاور سٹی پولیس کے ایک سینئر اہلکار نے بدھ کے روز اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا تھا کہ حکام اس امکان کی بھی چھان بین کر رہے ہیں کہ آیا پولیس کمپاؤنڈ کے اندر موجود افراد میں سے بھی کسی نے اس حملے کو منظم کرنے میں عسکریت پسندوں کی مدد کی۔ اس اہلکار کا کہنا تھا، ''ہم نے پولیس لائن (ہیڈ کوارٹر) سے لوگوں کو حراست میں لیا ہے تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ دھماکہ خیز مواد اندر کیسے پہنچا اور یہ بھی دیکھا جا سکے کہ آیا خود پولیس کا اپنا کوئی اہلکار بھی اس حملے میں ملوث تھا۔‘‘

نماز کے دوران سینکڑوں افراد کی موجودگی میں خود کش حملہ آور نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا تھاتصویر: Abdul Majeed/AFP/Getty Images

اس پولیس اہلکار نے مزید  بتایا کہ کم از کم 23 افراد کو حراست میں لیا گیا ہے، جن میں سے کچھ کا تعلق افغانستان کی سرحد سے متصل سابقہ ​​قبائلی علاقوں سے ہے۔

اس حملے نے ماضی میں دہشت گردانہ کارروائیوں کا شکار رہنے والے پشاور شہر کو ایک مرتبہ پھر لہولہان کر دیا ہے۔ پشاور ایک دہائی سے زائد عرصہ قبل پاکستانی طالبان (ٹی ٹی پی) کی طرف سے کیے جانے والے حملوں کا ایک بڑا ہدف تھا۔ تاہم پھر ایک فوجی آپریشن کے ذریعے ٹی ٹی پی کے عسکریت پسندوں کو پیچھے دھکیل دیا گیا تھا اور وہاں سے انہوں نے افغانستان کا رخ کر لیا تھا۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ افغانستان سے امریکہ اور نیٹو کی افواج کے انخلا اور طالبان کے کابل پر دوبارہ قبضے کے بعد سے عسکریت پسندوں کے حوصلے بلند ہوئے ہیں۔ اسلام آباد پاکستان کی قومی سرحدوں کو محفوظ بنانے میں ناکامی کا الزام کابل پر بھی لگاتا ہے۔

افغانستان میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد سے پاکستانی سکیورٹی فورسز دہشت گردوں کی جانب سے کم یا درمیانی سطح کے مسلح حملوں کا نشانہ بن رہی ہیں۔

ان  حملوں کی ذمہ داری زیادہ تر ٹی ٹی پی کے ساتھ ساتھ دولت اسلامیہ کی مقامی شاخ کی طرف سے بھی قبول کی جاتی ہے لیکن بڑے پیمانے پر جانی نقصان کا باعث بننے والے حملے بہت کم دیکھنے میں آتے ہیں۔

تحریک طالبان پاکستان نے خود کو پشاور کی ایک مسجد میں حالیہ دھماکے سے لاتعلق قرار دیا تھا اور دعویٰ کیا تھا کہ وہ اب عبادت گاہوں پر حملے نہیں کرتی۔ تاہم پولیس نے کہا ہے کہ حکام اس پہلو سے بھی چھان بین کر رہے ہیں کہ آیا اس حملے میں کوئی ایسے عناصر بھی ملوث ہیں، جو ماضی میں ٹی ٹی پی سے منسلک رہے ہوں۔

ش ر ⁄  م م (اے ایف پی)

سکیورٹی میں کوتاہی کے بغیر ایسا حملہ نہیں ہو سکتا، اعلیٰ پولیس اہلکار

02:29

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں