1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
کھیلافغانستان

کرکٹ معاملات میں مداخلت نہیں کریں گے، طالبان

21 اگست 2021

طالبان نے ملکی کرکٹ بورڈ کو معمول کی سرگرمیاں جاری رکھنے کی ہدایت کی ہے۔ افغان کرکٹ ٹیم اگلے ماہ پاکستان سے محدود اوورز کی سیریز کھیلنے والی ہے۔

آئی سی سی ورلڈ کپ میں افغان کرکٹر
تصویر: picture-alliance/empics/N. French

پاکستان اور افغانستان کے درمیان کھیلے جانے والی ٹی ٹوئنٹی سیریز  پر اُس وقت سوال کھڑے ہو گئے تھے جب کابل کا مکمل کنٹرول طالبان عسکریت پسندوں اور ان کی لیڈرشپ نے سنبھال لیا تھا۔ ایسا امکان پیدا ہو گیا تھا کہ تین ستمبر سے شروع ہونے والی سیریز ایک خواب بن کر رہ جائے گی۔

طالبان کی اجازت

افغانستان پر کنٹرول حاصل کرنے والے عسکریت پسند طالبان نے کہا ہے کہ وہ افغانستان کی مردوں کی کرکٹ ٹیم کے معاملات میں مداخلت نہیں کریں گے۔ دوسری جانب ویمن کرکٹ کے مستقبل پر سوالیہ نشان یقینی طور پر لگ چکے ہیں۔

تصویر: Action Images via Reuters/L. Smith

افغان کرکٹ بورڈ کے میڈیا آپریشن کے انچارج حکمت حسن کا کہنا ہے کہ کرکٹ سے طالبان کو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ حسن کا کہنا ہے کہ طالبان نے انہیں معمول کے مطابق کام جاری رکھنے کی ہدایت کی ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اب تک قومی کرکٹ ٹیم کے دو تربیتی کیمپ مکمل ہو چکے ہیں۔ حسن کے مطابق ان کی ٹیم رواں برس کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں بھی شرکت کرے گی۔

افغان کرکٹ بورڈ کے سربراہ کا بیان

افغانستان میں کرکٹ کی سرگرمیوں کے نگران بورڈ کے سربراہ حمید شنواری کا کہنا ہے کہ قومی ٹیم کے تربیتی کیمپ کا آغاز ہو گیا ہے۔ پاکستان اور افغانستان کی کرکٹ ٹیموں کے درمیان مجوزہ سیریز سری لنکا میں کھیلی جائے گی۔

حمید شنواری کے مطابق کھلاڑیوں کے حوصلے بلند ہیں۔ نیوز ایجنسی اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ اپنی ٹیم سری لنکا کے لیے روانہ کریں گے اور اب اس کا انتظار ہے کہ فلائٹ آپریشن کب شروع ہوتے ہیں۔ شنواری نے واضح کیا کہ وہ طالبان کے دور میں کرکٹ کے لیے کوئی خطرہ محسوس نہیں کرتے۔ یہ کرکٹ سیریز تین ستمبر سے شروع ہو گی۔

ع ح / ع آ (اے ایف پی، روئٹرز)

افغانستان میں طالبان کی مختصر تاریخ

03:06

This browser does not support the video element.

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں