1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کشمیر: عید کے دوران بھی تشدد، جھڑپیں اور ہلاکتیں

25 مئی 2020

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں عید کے موقع پر بھی عسکریت پسندوں اور بھارتی فورسز کے درمیان جھڑپیں جاری رہیں جس میں چند افراد کے ہلاک اور متعدد کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔

BG Pressebilder Bildband „Fotos für die Pressefreiheit 2020“ von Reporter ohne Grenzen | Dar Yasin Indien
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Dar Yasin

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں پاکستان کے ساتھ ہی اتوار کے روز عید منائی گئی جبکہ ملک کے دیگر حصوں میں پیر کو عید منائی جا رہی ہے۔ لیکن پیر کو علی الصبح ہی جنوبی کشمیر کے کولگام میں عسکریت پسندوں اور بھارتی فورسز کے درمیان جھڑپیں شروع ہوگئیں جس میں سکیورٹی فورسز نے دو شدت پسندوں کو ہلاک کرنے کا دعوی کیا ہے۔

اطلاعات کے مطابق ان ہلاکتوں کے پیش نظر علاقے میں زبردست کشیدگی ہے اور حکام نے کولگام اور شوپیاں ضلعے میں انٹرنیٹ خدمات کو معطل کر دیا ہے۔ کئی مضافاتی علاقوں سے بھارتی سکیورٹی فورسز اور سنگ بازوں کے درمیان جھڑپوں کی خبریں مل رہی ہیں۔

پولیس نے اس سلسلے میں اپنے ٹوئٹر پر لکھا کہ یہ واقعہ کولگام کے ہانجی پورہ خورد میں پیش آيا اور جائے واقعے سے اسلحہ و بارود برآمد کیا گيا ہے۔ پولیس حکام کے مطابق ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ شدت پسندوں کا تعلق کس گروہ سے تھا۔ سکیورٹی فورسز کا کہنا ہے کہ علاقہ اب بھی محاصرے میں ہے اور تلاشی کا کام جاری ہے۔

بعض بھارتی ذرائع ابلاغ نے سکیورٹی فورسز کے حوالے سے لکھا ہے کہ ہلاک ہونے والے ایک نوجوان کا کا نام عادل احمد وانی ہے اور دوسرے کا نام شاہین بشیر ٹھوکرے ہے۔ ان دونوں کا تعلق شوپیاں سے بتایا جا تا ہے۔ مقامی صحافیوں کے مطابق اس تصادم کے بعد سکیورٹی فوسرز اور مقامی لوگوں کے درمیان جھڑپیں ہورہی ہیں۔ کشمیر میں عام لوگوں کے پتھراؤ کے جواب میں سکیورٹی فورسز پلیٹ گن کا استعمال کرتی ہیں۔

اس ماہ کشمیر کے مختلف علاقوں میں اب تک کئی تصادم کے واقعات پیش آئے ہیں۔تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Khan

 

گزشتہ روز یعنی عید کے دن بھی  دو عام شہری ہسپتال میں ہلاک ہوگئے تھے جو چند روز قبل سرینگر میں ہونے والے انکاؤنٹر کے دوران مکان منہدم ہونے سے زخمی ہوئے تھے۔ اس واقعے میں ایک کم عمر بچہ پہلے ہی ہلاک ہوگيا تھا اور اس طرح اس میں اب تک تین عام شہری ہلاک ہوچکے ہیں۔ اس تصادم میں جنید صحرائی نام کا ایک عسکریت پسند اپنے ایک ساتھی کے ساتھ ہلاک ہوا تھا۔ ان دو افراد سے مقابلے کے لیے بھارتی سکیورٹی فورسز نے کئی گھنٹوں تک آپریشن کیا جس میں متعدد مکانات جل کر خاک ہوگئے تھے۔

اس ماہ کشمیر کے مختلف علاقوں میں اب تک کئی تصادم کے واقعات پیش آئے ہیں جس میں سکیورٹی فورسز سمیت متعدد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ رمضان کا پورا مہینہ تشدد اور کشیدگی میں گزرا۔ اتوار 24 مئی کو بھی پلوامہ کے اجھّن گاؤ کا محاصرہ کیا گيا تھا جس کے بعد وہاں بھی جھڑپیں ہوئی تھیں اور متعدد افراد زخمی ہوئے تھے۔

بھارتی کشمیر میں لاک ڈاؤن کے ساتھ ساتھ کافی بندشیں عائد ہیں۔ کچھ عرصے سے سخت پابندیوں کی وجہ سے پتھراؤ کے واقعات بہت کم ہوگئے تھے، تاہم مقامی صحافیوں کا کہنا ہے کہ حالیہ چند ہفتوں سے اس میں ایک بار پھر اضافہ ہوا ہے اور اب جہاں کہیں بھی بھارتی سکیورٹی فورسز محاصرہ کرتے ہیں مقامی نوجوان پتھراؤ شروع کر دیتے ہیں۔

عیدکے موقع پر بھی کشیدگی کی فضا۔تصویر: picture-alliance/NurPhoto/F. Khan

پی چدامبرم نے کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی پامالیوں کو روکنے  میں ناکامی پر بھارتی عدالتوں کے رویے پر سوالات اٹھائے ہیں۔ حالانکہ عام طور پر بھارتی رہنما کشمیر کی موجودہ صورت حال پر بات کرنے سے گریز کرتے ہیں تاہم سابق مرکزی وزیر نے کشمیر کی موجودہ صورتحال پر گہرے افسوس کا اظہار کیا ہے۔

کشمیر میں اس لاک ڈاؤن کے دوران انتظامیہ پر انسانی حقوق کی پامالیوں کا بھی الزام لگتا رہا ہے۔ چند روز قبل ہی بھارت کے سابق وزیر داخلہ پی چدامبرم نے اس حوالے سے عدالتوں پر بھی نکتہ چینی کی تھی۔ انہوں نے کشمیر کے حالات کا ذکر کرتے ہوئے امید ظاہر کی تھی کہ شاید بھارت اس بات کو سمجھ سکے کہ کشمیریوں کو کتنے بڑے پیمانے پر ناانصافیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

چدامبرم نے اپنی ایک ٹویٹ میں عدالتوں پر نکتہ چینی کرتے ہوئے لکھا تھا، ''مجھے تو یقین ہی نہیں آتا کہ گزشتہ تقریبا دس ماہ سے، عدالتیں بھی شہریوں کے انسانی حقوق کے تحفظ میں اپنے آئینی فرائض سے دستبردار ہو جائیں گی۔ کم سے کم اب بھارت کے دیگر حصوں کے لوگ ان افراد کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کی شدت کو تو سمجھ سکیں گے جنہیں حراست میں رکھا گیا اور جو اب بھی زیر حراست ہیں۔

صلاح الدین زین


 

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں