1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا راہول گاندھی کی پارلیمانی رکنیت ختم ہوجائے گی؟

24 مارچ 2023

ہتک عزت کا قصوروار پائے جانے پر راہول گاندھی کی پارلیمانی رکنیت ختم ہوسکتی ہے اور وہ آٹھ برس تک انتخابات میں حصہ نہیں لے سکیں گے۔ ان کی پارٹی کانگریس انہیں بچانے کے لیے مختلف ذرائع استعمال کرنے پر غور کر رہی ہے۔

Indien Surat | Rahul Gandhi bei Ankunft vor Gericht
تصویر: AP/picture alliance

 

بھارت کے عوامی نمائندگی قانون اور سپریم کورٹ کی جانب سے سن 2013 میں دیے گئے ایک فیصلے کی رو سے اگر کوئی رکن پارلیمان یا رکن اسمبلی کو کسی جرم میں کم از کم دو برس قید کی سزا ہوتی ہے تو اس کی رکنیت منسوخ ہوسکتی ہے۔

سزا پانے کی صورت میں اس کی رکنیت خود بخود منسوخ ہوجاتی ہے۔ البتہ لوک سبھا (ایوان زیریں) یا اسمبلی کو مذکورہ رکن کے قصوروار ثابت ہونے کی اطلاع ملنے اور ایوان کی جانب سے الیکشن کمیشن کو اس رکن کی نشست خالی ہونے کی اطلاع دینے کی رسمی کارروائی میں وقت لگ سکتا ہے۔

راہول گاندھی اور کانگریس کے لیے بڑا چیلنج

اس دوران اگر مذکورہ رکن کسی بڑی عدالت سے حکم امتناعی حاصل کرلیتا ہے تو ان کی رکنیت بچ سکتی ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ قصوروار ثابت ہونے کے فوراً بعد رکنیت منسوخ ہونے سے بچنے کے لیے ایک آرڈیننس کانگریس کی قیادت والی یوپی اے حکومت نے سن 2013 میں جاری کیا تھا لیکن اس وقت خود راہول گاندھی نے ایک پریس کانفرنس کے دوران آرڈیننس کی کاپی پھاڑ دی تھی۔ اس وقت کی ڈاکٹر من موہن سنگھ حکومت نے بعد میں آرڈیننس واپس لے لیا تھا۔

بھارت: کیا راہول گاندھی اپنے بیان پر معافی مانگیں گے؟

تاہم اگر موجودہ قوانین کے تحت راہول گاندھی گجرات عدالت کے فیصلے کے خلاف حکم امتناعی حاصل کرنے میں کامیاب نہیں رہتے ہیں تو نہ صرف وہ لوک سبھا کی رکنیت سے محروم ہوجائیں گے بلکہ وہ اگلے آٹھ برس تک انتخابات میں حصہ بھی نہیں لے سکیں گے۔ کیونکہ عوامی نمائندگی قانون کے تحت قصور وار قرار دیے گئے رکن پارلیمان یا رکن اسمبلی کو سزا کی مدت پوری کرنے کے بعد چھ برس تک الیکشن لڑنے کی اجازت نہیں ملتی ہے۔

 یہ راہول گاندھی اور کانگریس پارٹی کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔

کانگریس متبادل راستے کی تلاش میں

کانگریس پارٹی اس چیلنج کا سامنا کرنے کے لیے کئی لائحہ عمل پر کام کررہی ہے۔ سب سے پہلے تو وہ تمام اپوزیشن کو متحد کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ اس نے جمعہ 24 مارچ کو تمام اپوزیشن جماعتوں کا راشٹرپتی بھون (قصر صدارت) تک مارچ کرنے کا منصوبہ بنایا ہے، جس کے بعد تمام رہنما اس معاملے کو صدر دروپدی مرمو کے سامنے پیش کرنے کی کوشش کریں گے۔

کئی اپوزیشن جماعتوں نے راہول گاندھی اور کانگریس کے منصوبے کی حمایت کی ہے۔

اگر راہول گاندھی گجرات عدالت کے فیصلے کے خلاف حکم امتناعی حاصل کرنے میں کامیاب نہیں رہتے ہیں تو وہ لوک سبھا کی رکنیت سے محروم ہو جائیں گےتصویر: Altaf Qadri/AP/picture alliance

قانونی داو پیچ پرغور

کانگریس نے کہا ہے کہ فیصلے میں کئی بنیادی خامیاں ہیں جن کی بنیاد پر وہ اس کے خلاف اپیل کرے گی۔

 اس کا کہنا ہے کہ عدالت کا فیصلہ گجراتی زبان میں اور 170صفحات پر پھیلا ہوا ہے۔ ابھیشیک منوی سنگھوی جیسے کانگریس کے بڑے رہنما اور مشہور وکیل کو اس کا ترجمہ کرواکر اس کی باریکیاں سمجھنے میں کچھ وقت لگ سکتا ہے۔

سنگھوی نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ ہتک عزت قانون کے تحت قصور وار ثابت کرنے کے لیے" کسی واضح شخص یا واضح موضوع کی ہتک" ثابت ہونی چاہئے۔ پارٹی سمجھتی ہے کہ اس کیس میں ایسا نہیں ہوا ہے۔

کانگریس کی دوسری دلیل ہے کہ جس کی ہتک عزت ہوئی ہے اسے ہی شکایت درج کرانی ہوتی ہے اور بتانا ہوتا ہے کہ کس طرح سے اس کی ہتک ہوئی۔ لیکن اس کیس میں شکایت ان میں سے کسی شخص نے نہیں کی ہے۔

بھارت میں مودی کے خلاف پوسٹرز لگانے پر مقدمات اور گرفتاریاں

تیسری دلیل یہ ہے کہ یہ ثابت کرنا ہوتا ہے کہ ہتک عزت سے متعلق بیان کے پیچھے غلط جذبہ کارفرما تھا۔ کانگریس کا کہناہے کہ راہول گاندھی کا بیان عوامی مفاد کے موضوعات سے تھا اس میں کوئی غلط جذبہ کارفرما نہیں تھا۔

کانگریس نے دائرہ کار کا سوال بھی اٹھایا ہے۔ اس نے کہا ہے کہ بیان کرناٹک میں دیا گیا اس لیے اس کے خلا ف شکایت گجرات میں درج نہیں کرائی جاسکتی ہے۔ پارٹی کے مطابق یہ عدالت کے دائرہ کار کے اصول کے خلاف ہے۔

کیا راہول گاندھی کی یاترا سے بدلے گا قوم کا مزاج؟

کانگریس نے اس پورے کیس میں عدالتی عمل پر مکمل طورپر عمل درآمد نہیں کرنے کا بھی الزام لگایا ہے۔

دریں اثنا گجرات کی ایک عدالت کی جانب سے ہتک عزت کے کیس میں دو برس قید کی سزا سنائے جانے کے ایک روز بعد کانگریس کے سابق صدر راہول گاندھی آج جمعے کوپارلیمان پہنچے۔ لیکن ایوان میں جاری ہنگامے کی وجہ سے پارلیمان کی کارروائی ملتوی کردی گئی اور وہ وہاں سے چلے گئے۔

ج ا/ ص ز (چارو کارتیکیہ)

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں