1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا پنجابی بیرونی حملہ آوروں کا خیر مقدم کرتے رہے؟

11 دسمبر 2022

ایک تازہ تحقیقی کتاب نے تاریخی شواہد کے ساتھ پنجابیوں کی طرف سے بیرونی حملہ آوروں کا خیر مقدم کرنے کے تاثر کی تردید کرتے ہوئے بعض دلچسپ انکشافات کیے ہیں، جس سے ملک میں ایک نئی بحث شروع ہو گئی ہے۔

امجد نواز وڑائچ کی کتاب، پنجاب کٹہرے میں
امجد نواز وڑائچ کی کتاب، پنجاب کٹہرے میںتصویر: Amjad Waraich

پاکستان کے سینیئر صحافی اور دانشور امجد وڑائچ نے اپنی نئی کتاب 'پنجاب کٹہرے میں‘ میں پنجاب پر ہونے والے بیرونی حملوں کے خلاف پنجابی عوام کی مزاحمت کی تاریخ کا جائزہ لیا ہے اور اس ضمن میں عوامی سطح پر پائے جانے والے کئی فکری مغالطوں کی نفی کی ہے۔

امجد وڑائچ کی رائے میں پانچ دریاؤں کی سرزمین پنجاب کے جن پانچ بیٹوں نے مزاحمت کی شاندار تاریخ رقم کی ہے ان میں راجہ پورس، دلا بھٹی، رائے احمد خان کھرل، نظام لوہار اور بھگت سنگھ شامل ہیں۔

تاہم انہیں شکوہ ہے کہ پنجاب کی زیادہ تر تاریخ غیر پنجابیوں نے لکھی اور فاتحین کے مورخین نے فاتحین کے قصیدے ہی لکھے، اور مزاحمت کی تاریخ کے ساتھ غیر ملکی مورخین نے انصاف نہیں کیا۔

ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے امجد وڑائچ کا کہنا تھا کہ تاریخی طور پر سکندر اعظم سے لے کر ایسٹ انڈیا کمپنی تک پنجاب پر دس بڑے حملے ہوئے۔ ان تمام حملوں کے حوالے سے باقی سارے مفتوحہ علاقوں کو چھوڑ کر واہگہ بارڈر کے نزدیک واقع وسطی پنجاب کے باسیوں پر بیرونی حملہ آوروں کا ساتھ دینے، انہیں خوش آمدید کہنے اور مزاحمت نہ کرنے کے الزامات دھرے جاتے رہے ہیں۔

ان کی رائے میں جنوبی پنجاب اور سندھ کے رہنے والے بھی ان الزامات کی زد میں نہیں آئے لیکن اسلام قبول کر لینے والے پنجاب کے مقامی اور دیسی مسلمانوں کو مختلف وجوہات (زیادہ تر سیاسی مخالفت اور تعصب) کی وجہ سے الزامات کے کٹہرے میں کھڑا کر دیا گیا۔ اوراس خطے کی مزاحمت کی تحریکوں کو جان بوجھ کر سامنے لانے سے گریز کیا گیا۔

انگریزوں نے بنگالی، سندھی اور بلوچی سمیت کئی زبانوں کی زبان، گرائمر اور ڈکشنریوں کے ارتقا میں حصہ لیا لیکن پنجابی کو کبھی درخوراعتنا نہیں سمجھا۔

پنجاب میں بنگال کی طرز پر ریجنل پارٹیوں کے فروغ کی بجائے یونینسٹوں کی حوصلہ افزائی ہوئی۔ پنجاب میں یونینسٹ پارٹی اور مسلم لیگ کی لڑائی میں مسلم لیگ میں شامل پنجابی جاگیرداروں کو انگریزوں کے وفادار اور بیرونی حملہ آوروں کے سہولت کار قرار دیا گیا۔

تقسیم کے بعد پنجاب کو پنجابی فوج اور اسٹیبلشمنٹ سے جوڑ دیا گیا اور ناراض سندھیوں، بلوچیوں اور پختونوں نے اس الزام کو دہرا دہرا کر اپنی بھڑاس نکالی۔ پاکستان کے بائیں بازو کے دانشور پنجابی بیانیے کا حصہ بننے کی بجائے اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیے کی طرف ہو گئے۔ یوں وڑائچ کے بقول ''اس طرح حقائق اوجھل ہوتے چلے گئے اور پنجاب مخالف بیانہ تقویت پاتا رہا۔‘‘

’پنجاب مزاحمت کرنے والوں کا حامی‘

امجد وڑائچ کہتے ہیں کہ پنجاب کے لوگ ہمیشہ مزاحمت کرنے والوں کے حامی رہے ہیں۔ نواز شریف نے اسٹیبلشمنٹ کو چیلنج کر کے مقبولیت پائی، عمران خان اسٹیبلشمنٹ کے سامنے کھڑے ہوئے تو پنجابی عوام ان کی حمایت میں کھڑے ہو گئے اور انہوں نے ضمنی انتخابات میں بے مثال کامیابی حاصل کی۔ بھٹو بھی ایوبی اسٹیبلشمنٹ کو چیلنج کر کے پنجاب آئے تو لوگوں نے ان کا ساتھ دیا۔ قائد اعظم نے 1940 میں منٹو پارک لاہور میں قرارداد لاہور پیش کر کے اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کو چیلنج کیا تو اہل پنجاب یکسوئی کے ساتھ ان کے پیچھے کھڑے ہو گئے۔

امجد نواز وڑائچ صحافی اور دانشور ہیںتصویر: Amjad Waraich

امجد وڑائچ کے مطابق، ''بیرونی حملہ آور لاہور پہنچنے سے پہلے کئی سو کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے جن علاقوں کو بغیر کسی مزاحمت کے فتح کرلیتے تھے، ان پر کبھی بھی حملہ آوروں کا ساتھ دینے کا الزام نہیں لگا۔ یہ تہمت صرف پنجاب پر مذموم مقاصد کے لیے لگائی جاتی رہی ہے۔ دوسری جانب تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ اگر شمال، جنوب اور مشرق میں رہنے والے لوگ اپنے اپنے علاقوں میں یونانیوں، عربوں، ترکوں، منگولوں اور انگریزوں کو روکنے میں کامیاب ہو جاتے تو یہ حملہ آور پنجاب تک پہنچ ہی نہ پاتے۔‘‘

وڑائچ کے مطابق سکندر اعظم یونان سے چلا اور ترکی، افریقی، مڈل ایسٹ، سنٹرل ایشیا، ایران اور افغانستان بغیر کسی مزاحمت کے فتح کرتے ہوئے جب پنجاب پہنچا تو اسے یہاں مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ پنجابیوں نے اس کا دفاعی حصار توڑ ڈالا، جہلم کے قریب اس کا گھوڑا جنگ میں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا اور سکندر اعظم زہرآلود تیر کا شکار ہو کر زخمی حالت میں واپس چلا گیا اور یونان جاتے ہوئے اس کا راستے میں انتقال ہو گیا۔

امجد وڑائچ بعض مغربی محققین کی اس مشہور رائے سے اتفاق نہیں کرتے کہ سکندر اعظم کی جنگ میں پورس کو شکست ہوئی تھی اور بعد میں سکندر اعظم نے اس سے دوستی کر کے اسے مزید علاقوں سے نوازا تھا۔

امجد وڑائچ نے اپنی کتاب میں ایک ایک بیرونی حملہ آور کا ذکر کرکے اس کے خلاف عوامی سطح پر ہونے والی مزاحمت کے واقعات کو قلم بند کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کئی واقعات میں پنجاب کے حکمرانوں کی شکست کے باوجود پنجابی عوام نے گوریلا وار کی صورت میں بھی بیرونی حملہ آوروں کے خلاف اپنی جدوجہد جاری رکھی۔  اور انہوں نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ برصغیر کو فتح کرنے والے کئی حملہ آور اپنی پوری کوشش کے باوجود کئی کئی سالوں تک پنجاب کو کیوں فتح نہیں کر سکے تھے۔ ''انگریزوں نے اٹھارہ سو تین میں دلی فتح کیا وہ 46 سال تک دریائے ستلج پاس نہ کر سکے۔ ‘‘

وہ مزید کہتے ہیں، ''پنجاب میں دوسرے علاقوں کی طرح بیرونی حملہ آور عوامی حمایت نہیں حاصل کر سکے، بیرونی حملہ آوروں کو پنجاب میں لوگوں کو غلام بنا کر ساتھ لے جانے کی ہمت نہیں ہوئی۔ دیپال پور کے ایک کیس کے علاوہ پنجاب کے لوگوں نے بیرونی حملہ آوروں کے ساتھ رشتہ داریاں نہیں کیں۔ ‘‘

دیگر محققین کی رائے کیا ہے؟

ممتاز محقق اور شعبہ تاریخ جامعہ پنجاب کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر محبوب حسین نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ یہ بات درست ہے کہ پنجاب نے بڑی حد تک بیرونی حملہ آوروں کے خلاف مزاحمت کی ہے تاہم ان کے خیال میں سارے تاریخی واقعات کی سائنسی انداز میں جانچ ضروری ہے۔

ان کے خیال میں انگریزوں کے پنجاب کی مزاحمتی تاریخ کو برے طریقے سے مسخ کیا اس لیے نو آبادیاتی نظام کے خاتمے کے بعد پنجاب کی مزاحمت کے واقعات کی تاریخ کو از سر نو مرتب کرنا ضروری ہے۔

کتاب ’پنجاب کٹہرے میں‘ کی اشاعت نے نئی بحث کو جنم دیاتصویر: Amjad Waraich

ڈاکٹر محبوب نے بتایا کہ مغلوں، ترکوں اور عربوں کے ساتھ برصغیر آنے والے حملہ آوروں کے ساتھ بہت سے ایسے لوگ بھی یہاں آئے تھے جو بعد ازاں یہیں بس گئے۔ 1915 میں آل انڈیا مسلم لیگ کی صدارت کرنے والے رہنما مظہرالحق کے ایک بیان کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ  کہ اس دور میں برصغیر کی مسلم آبادی سات کروڑ کے لگ بھگ تھی اور اس میں 80 لاکھ کے قریب ایسے غیر ملکی مسلمان تھے جو دوسرے ملکوں سے آ کر وہاں بس گئے تھے۔

ان کے بقول انگریز مردم شماری میں ملکی اور غیرملکی مسلمانوں کی تفریق نہیں کرتے تھے۔ یہ لوگ بہت اثر رسوخ والے تھے۔ اور یہی وہ لوگ تھے جن کی طرف سے غیرملکی حملہ آوروں کا خیر مقدم کیا جاتا تھا ان کی طرف سے کوئی جدوجہد دیکھی گئی اور نہ ہی کوئی مزاحمت۔

ڈاکٹر محبوب بتاتے ہیں کہ بعض ماہرین کا خیال ہے کہ زرعی معاشرہ جنگی معاشرہ نہیں ہوتا اور ان دنوں پنجاب ایک خوشحال زرعی معاشرہ تھا جسے دولت یا رقبے کے حصول کے لیے جنگ کرنے کی ضرورت نہ تھی۔ ان دنوں زیادہ عرصے تک اقتدار پر اشرافیہ کا راج رہا تھا اور نظام لوہار یا دلا بھٹی جیسے پنجابیوں کی مزاحمت انفرادی یا علاقائی سطح پر تھی۔

مولا جٹ کے لیے پنجابی سیکھنا سب سے کٹھن کام تھا، ماہرہ خان

06:50

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں