1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

'ہم مذاکرات کے لیے تیار ہیں'، روسی صدر ولادیمیر پوٹن

26 دسمبر 2022

روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے کہا ہے کہ ماسکو یوکرین میں دس ماہ سے جاری جنگ کو ختم کرنے کی خاطر بات چیت کے لیے تیار ہے۔ انہوں نے تاہم اسی کے ساتھ "روس کوختم کرنے" کی مغربی ملکوں کی کوششوں کی مذمت بھی کی۔

Russland l Rede von Präsident Putin, Sitzung des Vorstands des russischen Verteidigungsministeriums
تصویر: Sergei Fadeichev/Sputnik/Pool via REUTERS

روسی صدر پوٹن نے اتوار کے روز ان خیالات کا اظہار ایسے وقت کیا ہے جب خارکیف اور زاپوریژیا سمیت یوکرین کے کئی شہروں میں روس کی جانب سے مسلسل بمباری ہو رہی ہے۔

کییف میں اعلیٰ حکام نے پوٹن کی پیش کش فوری طور پر مسترد کردی۔ امریکہ بھی کہہ چکا ہے کہ یوکرین پر جاری حملوں کے تناظر میں پوٹن اپنی بات میں مخلص نظر نہیں آتے ہیں۔

پوٹن نے کیا کہا؟

سرکاری ٹیلی ویژن روسیا ون پر نشر ہونے والے انٹرویو میں روسی صدر ولادیمیر پوٹن کا کہنا تھا، "ہم قابل قبول حل کے لیے ہر ایک ساتھ بات چیت کے لیے تیار ہیں اور اب یہ دوسرے فریق پر منحصر ہے۔ اور ہم مذاکرات سے انکار کرنے والے نہیں ہیں۔"

انہوں نے کہا کہ روس یوکرین میں "صحیح سمت" میں کام کر رہا ہے کیونکہ مغرب، امریکہ کی قیادت میں روس کو الگ تھلگ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

یوکرین میں امریکی پیٹریاٹ میزائل نظام تباہ کر دیں گے، روس

روسی رہنما کا کہنا تھا کہ مغرب نے سن 2014 میں میدان انقلاب مظاہروں میں روس نواز صدر کا تختہ الٹ کر یوکرین میں تنازع کا آغاز کیا تھا۔ اس انقلاب کے فوراً بعد ہی روس نے کریمیا کا الحاق کرلیا تھا اور روسی حمایت یافتہ علیحدگی پسند قوتوں نے مشرقی یوکرین میں فوج کے خلاف جنگ شروع کردی تھی۔

صدر پوٹن کا کہنا تھا، "دراصل، یہاں بنیادی چیز ہمارے جیو پولیٹیکل مخالفین کی پالیسی ہے جس کا مقصد روس، ایک تاریخی روس کو ٹکڑے ٹکڑے کر دینا ہے۔" پوٹن کا اشارہ اس نظریے کی طرف تھا جس کی رو سے یوکرینی اور روسی عوام ایک ہیں۔

مغرب میدان جنگ میں روس کو شکست دینا چاہتا ہے؟ تو کوشش کرکے دیکھ لے، پوٹن

انہوں نے کہا، "انہوں (مغرب) نے ہمیشہ 'پھوٹ ڈالو اور فتح کرو'کی پالیسی اپنائی ہے...لیکن ہمارا مقصد اس سے مختلف ہے، ہمارا مقصد روسی عوام کو متحد کرنا ہے۔" انہوں نے مزید کہا، "مجھے یقین ہے کہ ہم صحیح سمت میں کام کر رہے ہیں، ہم اپنے قومی مفادات، اپنے شہریوں، اپنے لوگوں کے مفادات کا دفاع کر رہے ہیں اور ہمارے پاس اپنے شہریوں کی حفاظت کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔"

یہ پوچھے جانے پر کہ کیا مغرب کے ساتھ جیو پولیٹیکل تنازع خطرناک سطح پر پہنچ رہا ہے، صدر پوٹن کا کہنا تھا "مجھے نہیں لگتا کہ یہ تنازع اتنا خطرناک ہے۔"

یوکرین کے صدر کے ایک مشیر نے کہا کہ روس مذاکرات نہیں چاہتا بلکہ وہ ذمہ داری سے بچنے کی کوشش کر رہا ہے۔تصویر: president.gov.ua

یوکرین کا ردعمل

روسی صدر کا یہ بیان ایسے وقت آیا ہے جب اتوار کے روز ہی یوکرین نے دو مرتبہ ملک گیر فضائی الرٹ جاری کیے۔

یوکرین کے صدر وولودو میرزیلنسکی کے ایک مشیر میخائل پوڈولیاک نے کہا کہ پوٹن کو حقیقت کی طرف واپس آنے اور یہ تسلیم کرنے کی ضرورت ہے کہ یہ روس ہی تھا جو کوئی مذاکرات نہیں چاہتا تھا۔

میخائل پوڈولیاک نے ٹویٹر پر کہا کہ روس نے اکیلے ہی یوکرین پر حملہ کیا اور شہریوں کو قتل کر رہا ہے۔ روس مذاکرات نہیں چاہتا بلکہ وہ ذمہ داری سے بچنے کی کوشش کر رہا ہے۔

روسی حملے مسلسل جاری

پچھلے 24 گھنٹے کے دوران کراماٹورسک شہر پر تین میزائیل گرے جب کہ خارکیف میں روسیوں کی جانب سے دس مرتبہ حملے کیے گئے۔ یوکرین کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ روس نے کوپیانسک لیمان کے اطراف کے 25 سے زائد قصبات اور زاپوریژیا میں 20 دیگر مقامات پر میزائل داغے۔

ایک اعلیٰ سرکاری عہدیدار کے مطابق خیرسون علاقے میں پچھلے 24 گھنٹوں کے دوران 71 میزائل داغے گئے جن میں صرف خیرسون شہرپر ہی 41 میزائل گرائے گئے۔

یوکرین اور مغرب کا کہنا ہے کہ پوٹن کے پاس سامراجی طرز کے قبضے کی جنگ کا کوئی جواز نہیں ہے۔ اس جنگ نے پورے یوکرین میں مصائب اور موت کا بیج بویا ہے۔

جرمن صدر فرانک والٹر شٹائن مائرنے یوکرین میں فوری امن کی اپیل کی ہےتصویر: Tobias Schwarz/AP Photo/picture alliance

جرمن صدر کی اپیل

جرمن صدر فرانک والٹر شٹائن مائرنے یوکرین میں فوری امن کی اپیل کی ہے، جہاں پچھلے دس ماہ سے جاری جنگ کے دوران عوام شدید مصائب سے دوچار ہیں۔

روسی مؤقف میں لچک نہیں آئی، جرمن چانسلر

کرسمس کے موقع پر اتوار کے روز قوم کے نام اپنے خطاب میں جرمن صدر نے یوکرین پر روس کی فوجی کارروائی کے بعد سے پچھلے دس ماہ کے دوران ابتر ہوتی صورت حال پرتشویش کا اظہار کیا۔

جرمنی نے یوکرین جنگ میں نیٹو کا ساتھ دے کر غلطی کی، پوٹن

انہوں نے کہا، "ہماری شدید ترین خواہش ہے کہ خطے میں امن جلد ازجلد دوبارہ بحال ہو جائے۔"

ج ا/ ص ز (اے ایف پی، روئٹرز، ڈی پی اے)

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں